"رئیس امروہوی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ مساوی زمرہ جات (22): + زمرہ:پاکستانی محققین |
م clean up, replaced: ← (236), ← (107), ← (55), ← (29) using AWB |
||
سطر 1:
{{صفائی نو لکھائی}}
سید محمد مہدی المعروف '''رئیس امروہوی''' [[ہندوستان|برصغیر]] کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہرمرموز علوم تھے۔
آپ 12 ستمبر 1914ء کو یوپی کے شہر [[امروہہ]] کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔1936 میں صحافت سے وابستہ ہوئے، ابتدا میں امروہہ کے اخبارات قرطاس اور مخبر عالم کی ادارت کی۔
تقسیم ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے [[کراچی]] آگئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی ادارت میں جنگ [[پاکستان]] کاسب سے کثیرالاشاعت روزنامہ بن گیا۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ نثر میں آپ نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا۔ 22 ستمبر 1988ء کو آپ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔
سطر 20:
* نفسیات و مابعد النفسیات ( 3 جلدیں)
* عجائب نفس
* لے سانس بھی آہستہ
* جنسیات
* عالم برزخ
* حاضرات ارواح
* اچھے مرزا
رئیس امروہوی دور حاضرہ کے ممتاز شعراءمیں سے ہیں وہ تمام اصناف سخن میں قادر الکلام ہیں، پُر گو ہیں، حاضر طبع ہیں، زدو گو ہیں، فکر میں قدرت ہے، طرز ادا میں جدت ہے، زبان میں صفاحت ہے، بیان میں سلاست ہے، نظر میں وسعت ہے، غزل ہو یا نظم قطعات ہوں یا رباعیاں، ادب ہو یا فلسفہ، رندی و مستی ہو یا فقر و تصوف ، سنجیدہ مضامین ہوں یا طنز و مزاح ، وہ ہر میدان کے ”مرد میدان“ نظر آتے ہیں۔ اور جس موضوع پر لکھتے ہیں خوب لکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں قدیم غزل کی روح نئے انداز بیاں کا جامہ پہن کر شاہد معنی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔وہ شاہد معنی کوزبان شعر میں ”جان گل“ کہتے ہیں۔ رنگ کومجاز اور بُو کو حقیقت بنا کر گل کورنگ و بُو دونوں کا جامع کہتے ہیں۔ مگر اس جامعیت کے مشاہدے پر بھی ان کی نظر قانع نہیں، وہ گل میں ”جان گل“ کوخوشبو اوررنگ میں منحصر نہیں سمجھتے بلکہ ”جان گل “ کو ”ماورائے رنگ و بو“ تصور کرتے ہیں اور اس سے برافگندہ نقابی کے تمنائی ہیں </div></div>
اگر نقاب الٹ دے توکیا قیامت ہو
</div>
حوادث عالم کی توجیہ عقل کے سپرد کردی جائے گی تو سبب و مسبب اور علت و معلول کی گتھیاں سلجھانے کے بجائے عقل ان میں الجھ کر رہ جائے گی۔ رئیس امروہوی یہ کام عقل کے سپرد نہیں کرتے، عشق سے حادثات لیل و نہار کا سبب پوچھتے ہیں اورانہیں جواب ملتا ہے کہ </div>
یہ حادثات شب و روز بے سبب تو نہیں
</div>
محبت میں سب کچھ ہے مایوسی نہیں۔ وہ اپنے محبوب سے شکستہ دل کے باوجود مایوس نہیں۔ وہ ستم میں کرم کے ہزاروں پہلو دیکھتے ہیں۔ یہ انداز عشق کوہوس سے ممتاز کرتا ہے
تمہیں فسردہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں
نور و نار اور جمال و جلال ایک ہی حقیقت کمے دو رخ ہیں </div></div>
بس ایک آگ ہے جو حسن میں ہے گرمی ناز
شدت احساس سے خیال واقعہ بن جاتا ہے </div></div>
دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا
روحانئین کے نزدیک مادہ بھی ہماری شعوری کیفیات کا نام ہے۔ یہ ہمارے شعور ہی کی تو کیفیات ہیں جن کا ادراک ہم خارج میں کرتے ہیں۔ رئیس امروہوی اس مقام پر اپنے پیکر جسمانی کواپنی روح پر لباس کی صورت میں مشاہدہ کرتے تو مادہ جواب میںروح بن جاتا۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ پیکر حسن بھی شعور ہی کی ایک کیفیت ہے اور یہ شعور ہی بجائے خود لباس جاں ہے، کہتے ہیں </div></div>
خود اپنے شعور جاں سے ملبوس
انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کوآزادی محبوب ہے اس حقیقت کی طرف رئیس امروہوی نے کیا خوب توجہ دلائی </div></div>
خود اپنے وجود میں مقید
زمانہ مطلق بھی ہے مقید بھی۔ اس پیچیدہ مسئلے کورئیس امروہوی صاحب نے کتنے سادہ الفاظ میں بیان ہے ہے جس سے ذات باری کے گمان ہونے کا مفہوم ملتا ہے
گماں نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا
اس مادیت اور لاادریت کے دور میں رئیس امروہوی آخرت کی زندگی پر نہ صرف یقین ہی رکھتے ہیں بلکہ وہ اس یقین کو دوسروں کی طرف منتقل کرنے کے لئے موثر یقین آفریں اور دل نشین پیرایہ بیان کے بھی مالک ہیں
خلوت قبر سے نکلتی ہے
جس طرح جشن شب سے جلوہ�صبح
یقین اور یقین دھانی کا یہ عالم ہے کہ کثرت عالم کی تعبیر وہ کثرت صفات سے کرتے اور کثرت صفات کو ذات و صفات کے چہرے پر رنگا رنگ نقابوں سے تعبیر کرتے ہیں
کچھ نہیں اک جمال ذات پہ ہیں
مگر شعر مابعد میں جب وہ کہتے ہیں
اور یہ بھی تمام وہم و گماں
تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ اپنے وجدان و عرفان پر جیسے انہیں اعتماد نہ رہا ہو۔رئیس امروہوی کے یہاں علم و ادب میں جہاں حکمت و فلسفہ کی چاشنی ہے وہیں پر تذبذب اور تشکیک کی ملاوٹ بھی پائی جاتی ہے
یہ حقیقت کی تجلّی ہے مری نظروں میں
انسان اللہ کی صنعت خلاقی کا مظہر ہے اس لئے مجازاً صنعت خلق کا ظہور اس سے ہوتا ہے </div></div>
ہزار عالم و آدم ہزار خالق و خلق
بصیرت و بصارت میں امتیاز نہ کیا جائے تو اس شعر کے معنی کا شعور مشکل ہے ۔ جزوی مشاہدے کا کلی مشاہدے میں محو ہوجانے کا نام نظر کا بینائی میں گم ہوجانا رکھا گیا ہے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود اپنی بصیرت کی حدود
استغنائے عشق سے حسن میں دوق تجسس پیدا ہوگیا ہے
یہ کون قریب آ رہا ہے
حقیقت کائنات ۔</div></div>
کیا ہے یہ کائنات کن فیکون
کیا ہے یہ عالم وجود و بقا
جس بحر بیکراں کا ایک قطرہ�¿ کائنات کن فیکون ہو اور سارا عالم وجود جس دنیا کے آگے ذرے کی برابر ہو اس کی لامتناہی وسعتوں کا اندازلگانا محال ہے۔ مگر جس قلب میں یہ لامتناہی وسعتیں سما سکیں وہ وسیع تر ہے۔ رئیس امروہوی ”دل“ کو لامتناہی وسعتوں کا عامل قرار دیتے ہیں۔جب بیکراں بتاتے ہیں تو”دل مومن“ کی تعریف اس پر صادق آتی </div></div>ہے
دل غم دو جہاں میں ڈوب گیا
خیر و شر دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں </div></div>
خیر مطلق تھا شر سے آلودہ
خاموشی اور اعماق فکر کو دیکھئے ۔ حرکت نفسی کومنازل حیات میں قطع سفر سے تعبیر کیا گیا ہے
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
مسرت مجاز اور غم حقیقت کو بھی دیکھئے </div></div>
شگفتگی کو ٹٹولا فسردگی پائی
”چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بہ کنار ما “ کی تفسیر ملاحظہ ہو
یہ ناز حسن ہے یا امتحان عشق اے دوست
محبوب کی کم آمیزی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا
ان سے محفل میں ملاقات بھی کم تھی نہ مگر
غالب نے کہا تھا کہ ” موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی “ لیکن رئیس امرہوی خرام صہبا سے محبوب صباخرام کی صدائے پا سنتے ہیں </div></div>
چل کحھ اس انداز سے نسیم بہار
نیاز عشق ناز حسن سے بدلا تو</div></div>
اب آپ کی آنکھ میں ہیں آنسو
حال کے آئینے میں دوست کی تجلی جاودانی صورت نظر آتی ہے
ہیں حضور دوست فکر دوش و فردا کیا کروں
غرور عشق میں شان کبریائی ملاحظہ ہو
محبت ہے نیاز آئیں تو اے دل
وہ رگ و جاں سے قریب ہے۔ دل اس کا عرش ہے وہ پاس ہے وہ ساتھ ہے ۔ النفس و آفاق اس کی جلوہ گاہیں ہیں </div></div>
باہمہ قربت دل دیدہ
خود آگہی کو رئیس جہنم کہتے ہیں جس میں خود جل رہے ہیں
مرے قریب نہ آ اے بہشت بے خبری
حسن کی کشش مشہور ہے ۔ دل محبوب کی طرف خود بخو دکھینچتا ہے یہ کیفیت شعوری ہے۔ مگر گریز کو جذب لاشعوری بتانا۔ رئیس کی فکر کا وہ کارنامہ ہے جس کی داد اہل فکر ہی دے سکتے ہیں
جمال دوست کی جانب کشش ہے عین شعور
ایک بات کو مختلف روپ میں پیش کرنا، ایک مفہوم کو رنگا رنگ اسلوب سے ادا کرنا، ایک حقیقت کو گوناگوں الفاظ و عبارت کے جامے میں ملبوس کرنا جہاں شاعرانہ صلاحیتوں کا مظہر ہوتا ہے وہاں شاعر کے تخیل، تمول اور علمی سرمائے کا بھی اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔ رئیس امروہوی میں یہ خصوصیت بہت نمایاں ہے۔ جب ہم ان کی بعض منصومات مثلاً ”آفرینش نامہ“ دیکھتے ہیں تو پوری نظم جو تین صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اس کا ماحصل دو لفظوں اطلاق و قید یا مطلق و قید ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر نے ان فلسفیانہ اصطلاحات کی خشک زمین کو نہایت شگفتہ اور بہت ہی تروتازہ نظم سے باغ ہ بہار بنا دیا ہے پوری نظم زور بیاں، ندرت کلام اورشوکت الفاظ کا مرقع ہے۔ اسی طرح ”عدم“ کے عنوان سے جو نظم ہے وہ بھی رئیس امروہوی کا ادبی شاہکارہے۔ پوری نظم مرصع ہے۔ تلازم الفاظ اور مترادفات کا پرشوکت استعمال تاآنی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ فی الجملہ منظومات سے شاعر کی وسعت نظر و فکر کی گہرائی مطالعے کی ہمہ گیری اور مشاہدے کی جامعیت کا پتہ چلتا ہے۔</div></div>
[[زمرہ:پاکستانی محققین]]
[[زمرہ:بیسویں صدی کے شعراء]]
[[زمرہ:مہاجر شخصیات]]
[[زمرہ:1914ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1988ء کی وفیات]]
|