"جی ایم سید" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
علاماتِ عیسوی کا اضافہ
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 27:
|}
 
'''جی ایم سید''' (پیدائش : [[17 جنوری]] [[1904ء]] - وفات: [[25 اپریل]] [[1995ء]]) [[سندھ]] سے تعلق رکھنے والے [[پاکستان]] کے ممتاز سیاستدان اور دانشور تھے جنہوں نے [[سندھ]] کو بمبئی سے علیحدگی اور [[سندھ]] کی [[پاکستان]] میں شمولیت کے حوالے سے ناقابل فراموش کردار تھا۔
سائیں جی ایم سید قیام [[پاکستان]] کے ہیروز میں سے ایک ہیں ان کا تحریک آزادی میں ایک اہم کرداررہا ہے انہی کی بدولت آج صوبہ [[سندھ]] پاکستان کا ایک حصہ ہے. وہ جی ایم سید ہی تھے جنہوں نے سندھ میں [[قرارداد پاکستان]] پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے پاس کروایا جس کی بدولت سندھ پاکستان کا ایک حصہ بنا.
 
== حالات زندگی ==
جی۔ ایم سید (اصل نام: غلام مرتضی سید)
جی ایم سید [[17 جنوری]] [[1904ء]] کو سندھ میں ضلع دادو کے قصبہ "سن" میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام غلام مرتضی سید تھا۔ جی ایم سید سندہ کے قوم پرست رہنما تو تھے مگر ان کی دلچسپیان صوفی ازم ، شاعری، تاریخ، اسلامی فلسفہ، نسلیات اور ثقافت میں بھی تھی۔ [[1930ء]] میں سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد دکھی۔ جس کی عنان بعد میں [[حیدر بخش جتوئی]] ہاتھوں میں آئی۔ ان کا تعلق سندہ کےصوفی بزرگ سید حیدر شاہ کاظمی کے خانوادوں میں تھا اور وہ ان کی درگاہ کے سجادہ نشین بھی رھے۔ سید صاحب ‘سند"سند عوامی محاز‘محاز" کے بانی بھی تھے۔ سائیں جی ایم سید [[قیام پاکستان]] کے ہیروز میں سے ایک ہیں ان کا تحریک آزادی میں ایک اہم قردار ہے انہی کی بدولت آج صوبہ سندھ پاکستان کا ایک حصہ ہے. وہ سائیں جی ایم سید ہی تھے جنہوں نے سندھ میں قرارداد پاکستان پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے پاس کروایا جس کی بدولت سندھ پاکستان کا ایک حصہ بنی۔ 1955ء میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی پھر سندھی ادیب، استاد محمد ابرہیم جویو ( پیدائش 2 اگست 1915ء) کی مشاورت میں سندھی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا جو مارکسزم ، کبیر،گرونانک اور گاندھیائی فلسفہ حیات کا ملغوبہ تھا۔ 1966ء میں بزم صوفی سندھ، 1969ء میں سندھ یونائیڈڈ فرنٹ، اور 1972ء میں جے سندھ محاز کی تشکیل اور انصرام میں اہم کردار ادا کیا۔ سائیں جی ایم سید نے ساٹھ (60) کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت" ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔ ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم،سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی ہیں۔ 1971ء میں سقوط [[مشرقی پاکستان]] کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم [[ذولفقارذوالفقار علی بھٹو]] سے " سندھو دیش" کا مطالبہ کیا تھا۔
آمد: 17 جنوری 1904ء ، "سن" ضلع دادؤ، سندھ، پاکستان
رخصت: 25 اپریل 1995ء ، کراچی پاکستان
جی ایم سید سندہ کے قوم پرست رہنما تو تھے
مگر ان کی دلچسپیان صوفی ازم ، شاعری، تاریخ، اسلامی فلسفہ، نسلیات اور ثقافت میں بھی تھی۔ 1930ء میں سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد دکھی۔ جس کی عنان بعد میں حیدر بخش جتوئی ہاتھوں میں آئی۔ ان کا تعلق سندہ کےصوفی بزرگ سید حیدر شاہ کاظمی کے خانوادوں میں تھا اور وہ ان کی درگاہ کے سجادہ نشین بھی رھے۔ سید صاحب ‘سند عوامی محاز‘ کے بانی بھی تھے۔ سائیں جی ایم سید قیام پاکستان کے ہیروز میں سے ایک ہیں ان کا تحریک آزادی میں ایک اہم قردار ہے انہی کی بدولت آج صوبہ سندھ پاکستان کا ایک حصہ ہے. وہ سائیں جی ایم سید ہی تھے جنہوں نے سندھ میں قرارداد پاکستان پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے پاس کروایا جس کی بدولت سندھ پاکستان کا ایک حصہ بنی۔ 1955ء میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی پھر سندھی ادیب، استاد محمد ابرہیم جویو ( پیدائش 2 اگست 1915ء) کی مشاورت میں سندھی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا جو مارکسزم ، کبیر،گرونانک اور گاندھیائی فلسفہ حیات کا ملغوبہ تھا۔ 1966ء میں بزم صوفی سندھ، 1969ء میں سندھ یونائیڈڈ فرنٹ، اور 1972ء میں جے سندھ محاز کی تشکیل اور انصرام میں اہم کردار ادا کیا۔ سائیں جی ایم سید نے ساٹھ (60) کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت" ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔ ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم،سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی ہیں۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم [[ذولفقار علی بھٹو]] سے " سندھو دیش" کا مطالبہ کیا تھا۔
جی ایم سید کی سیاست ان نکات کے گرد گھومتی تھی:
*عدم تشدد