"خارجی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م ویکائی
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
[[اسلام]] میں پہلا مذہبی فرقہ جس نے شعائر سے ہٹ کر اپنا الگ گروہ بنایا۔ یہ گروہ جس کی اکثریت بدوی عراقیوں کی تھی۔ [[جنگ صفین]] کے موقع پر سب سے پہلے نمودار ہوا۔ یہ لوگ [[حضرت علی]] کی فوج سے اس بنا پر علیحدہ ہوگئے کہ انھوں نے حضرت [[امیر معاویہ]] کی ثالثی کی تجویز منظور کر لی تھی۔ خارجیوں کا نعرہ تھا کہ ’’حاکمیت اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ انھوں نے شعث بن راسبی کی سرکردگی میں مقام حرورا میں پڑاؤ ڈالا اور [[کوفہ]] ، [[بصرہ]] ، [[مدائن]] وغیرہ میں اپنے عقائد کی تبلیغ شروع کر دی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں انسان کو حاکم بنانا کفر ہے اور جو لوگ ایسے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ واجب القتل ہیں۔
 
خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت علی المرتضی [[خلیفہ]] برحق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اللہ اور رسول اللہ کے دشمن تھے۔ اس لیے امیر معاویہ اور ان کے حامی کشتنی اور گردن زدنی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔ حضرت علی نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئ۔ لہذا حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ دونوں کے خلاف جہاد لازم ہے۔ حضرت علی نے خارجیوں کو جنگ نہروان میں شکست فاش دی۔ لیکن ان کی شورش پھر بھی باقی رہی۔ چنانچہ حضرت علی ایک خارجی [[ابن ملجم]] کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس کے بعد امیر معاویہ کے عہد میں بھی ان کی بغاوتیں ہوتی رہیں اور ان کا دائرہ عمل [[شمالی افریقہ]] تک پھیل گیا۔ کوفہ اور بصرہ ان کے دو بڑے مرکز تھے۔ [[فارس]] اور عراق میں بھی ان کی کافی تعداد تھی۔ وہ بار بار حکومت سے ٹکرائے۔ [[عباسی]] خلافت تک ان لوگوں کا اثر رسوخ رہا اور حکومت کے خلاف ان کی چھوٹی بڑی جنگیں جاری رہیں۔
 
 
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مطابق خوارج کا جد امجد [[ذوالخویصرہ تمیمی]] تھا، جو نبی اکرم {{درود}} کے ساتھ گستاخی سے پیش آیا۔ اس پر انہوں نے اسے سخت وعید فرمائی۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ملاحظہ ہو:
 
حضرت [[ابوسعید خدری]] رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت [[علی علیہ السلام|علی]] رضی اللہ عنہ نے [[یمن]] سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھجوایا۔ حضور نبی اکرم {{درود}} نے وہ سونا چار ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیا۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت [[خالد بن ولید]] رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالدہو،خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ {{درود}} نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ آپ کو پشت کر کے مڑا تو آپ نے پھر اس کی جانب دیکھا اور فرمایا: اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن [[قرآن]] ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔