"جاٹ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م clean up, replaced: ← (38), ← (6), ← (2) using AWB
سطر 1:
* == جٹوں کا پھیلاؤ ==
گنگا جمنا کے دوآبے اور راجپوتانے  [[کنجر]] '''جاٹ''' کہلاتے ہیں اور پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔ اس طرح یہ جیٹ، جٹ، زت کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ پنجاب سے لے کر مکران کے ساحل تک گنگا کے کنارے تک جاٹ کثیر تعداد میں اور پنجاب میں ان کی اکثریت ہے۔ گو اب یہ مسلمان ہیں اور شمالی ہند میں یہ دوسری اقوام سے اور رجپوتانہ میں نصف کسان جاٹ ہوں گے۔ دریائے سندھ کے کنارے ان کی بہت سی قومیں مسلمان ہوچکی ہیں۔ غیر مستقیم پنجاب میں راوی کے مغربی اضلاع میں بیشتر جاٹ مسلمان تھے۔ لیکن وسطی پنجاب میں وہ اکثر سکھ اور جنوبی پنجاب میں وہ اکثر ہندو ہیں۔
جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ بلوچ بھی جاٹ نسل ہیں۔ بلوچ اور ان کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی کی اصل جاٹ ہے۔ کیوں کہ بلوچ روایات کے مطابق میر جلال خان کی لڑکی جاتن سے منسوب ہے۔ جاتن جات کا معرب ہے۔ اس طرح جت اور جاٹ کے علاوہ جتک، جدگال اور دوسرے قبائل کی اصیلت جاٹ النسل ہے۔ یہ اگرچہ خود کو جاٹ نہیں مانتے ہیں اور بلوچ کہتے ہیں۔ سندھ کے سماٹ قبائل کی اکثریت جاٹ النسل ہے۔
* == جاٹ نسل ==
سطر 7:
جٹ دراز قد ہوتے ہیں ان کا جسم گھٹا ہوا اور مظبوط ہوتا ہے اور رنگ سانولہ ہوتا ہے۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ جاٹ نسل کے لحاظ سے وہ آریا ہیں۔ اگرچہ بعض مصنفین نے انہیں اصل کے اعتبار کے لحاظ سے سیتھائی آریائی قرار دیا ہے۔ جس کی بڑی شاخ میں آگے چل کر مختلف قبائل کی آمزش ہوگئی ہے۔
اگرچہ جنرل کنگم کا کہنا ہے کہ جاٹ اندوسیتھک ہیں اور سکندر کے بعد آئے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تورانی یا اندوسیتھک نہ ڈراویڈوں سے زیادہ ملی نہ آریوں سے۔ تاہم اس میل کا اثر جو وقوع میں آیا ہے، وہ جاٹوں میں موجود ہے۔ مثلاً بعض ان میں سیاہ فام ہیں اور بعض کا رنگ قدر صاف ہے، جیسا کہ راجپوتوں کا۔
کورو کی ایک شاخ جارٹیکا کے نام سے مشہور تھی اور پنجاب میں آباد تھی۔ یہ غالباً جٹوں کے اسلاف تھے۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی روایات کے مطابق وہ پانچویں صدی عیسویں کے مابین دریائے سندھ کے مغرب سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔
جاٹ اگرچہ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی میں شامل ہیں، لیکن راجپوت نہیں کہلاتے ہیں اور نہ ہی راجپوت جاٹوں سے شادی بیاہ کرتے ہیں۔ ان کا شمار نچلی اقوام میں ہوتا ہے۔ ان سے لڑکی لے لی جاتی ہے لیکن لڑکی نہیں دی جاتی ہے۔
* == جٹوں کے متعلق نظریات ==
لی بان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے اصل باشندے تورانی الاصل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تورانی جات آریوں کی چڑھائی کے وقت سارے ملک کے مالک تھے اور باآسانی یہ ان کے محکوم ہوگئے۔ آریا فاتحین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کو درمیانی ذات ویش یا تجارت پیشہ ذات میں ان کو شامل کردیا۔ برخلاف اس ملک کے اصل باشندوں کو شودر بنا دیا۔ گویا جاٹو کی رضامندی سے آریا اس ملک کے حاکم بن گئے۔ اس باہمی رضامندی کا پتہ تخت نشینی کی رسم میں ملتا ہے۔ کیوں کہ بادشاہ تاج جاٹوں کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔
ویمرے کا کہنا ہے کہ جیتی نام ان منگولوں کا تھا، جو منگولیا کی سرحد پر رہتے تھے۔ ان کی نسل کے جو لوگ ہیں وہ بروتی ہیں۔ وسطہ ایشیا میں اب ان منگولوں کو چیتے مغل (سرحدی مغل) کہتے ہیں۔ ترکی میں جیت سرحد کو اور منگول کو مغل کہتے ہیں۔
بی ایس ڈاہیا کہا کہنا ہے کہ جٹ یہ لفظ بدزات خود بہادری عمل اور پیش قدمی کی علامت ہے شمشیر زنی اور ہل لانے کے ماہر جاٹوں نے مشرق میں منگولیا سے چین سے لے کر مغرب میں اسپین اور انگلستان تک شمال میں سکنڈے نیوبا اور نوڈ گروڈ سے لے کر جنوب میں پاک و ہند ایران اور مصر تک ایشیا اور یورپ کی سرزمین پر تیر و تبر سے اپنا نام رقم کیا۔ برصغیر ایران روس اور جٹ یا جاٹ اور ترکی و مصر میں جاٹ عرب ممالک میں زظ یا جظ، منگولوں کی زبان میں جٹیہ سویڈن اور ڈنمارک میں گوٹ اور جرمنی اور دیگر زبانوں میں گوٹھ یا گوٹ، ینی میں یوچی (جس کا تلفظ گٹی ہے) کہلاتے ہیں۔
جینی مصنف وردھمان شاکا اور جرٹ قبائل کا ذکر کرتا ہے چندر گومن نے لکھا ہے کہ جاٹوں نے ہن قبائل کو شکست دی یشودھرمن اور گپت فرمانروا جاٹ تھے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے ہنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اگرچہ ہن خود بھی جاٹ تھے۔
شاکا، کشان، ہن، کیداری، خیونی (چیونی) اور تکھر (تخار) جنیں الگ الگ نسل شمار کیا جاتا ہے، گو وسطی ایشائی میدانوں میں انہیں بعض اوقات ایک دوسرے کا پڑوسی ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی نسل تھی جاٹ، مگر ان کے حکمران خاندانوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اپنا قبائلی نام اختیار کیا۔
وسط ایشیا کا علاقہ آریائی اقوام کا اصل وطن ہے۔ یہی وجہ کہ برصغیر کی تمام روایات میں اس کے ساتھ تقدس وابستہ ہے۔ ویدی ادب سے لے کر تمام تحریروں میں شمال میں دیوتاؤں کی سرزمین ہے۔
سطر 21:
* == جٹوں کا کردار ==
جاٹوں نے کبھی برہمنی مذہب کی برتری اور بالادستی قبول نہیں کی اور یہی وجہ ہے انہوں نے رسمی انداز میں باقیدہ ہندو مذہب قبول نہیں کیا۔ یہی پس منظر تھا جس میں برہمنوں نے اور ان کی تقلید میں دوسری ذاتوں نے جاٹوں کو کشتریوں کا نچلا طبقہ بلکہ شودر خیال کرتے ہیں۔ لیکن جاٹوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی اور کتاب ہندو قبائل اور ذاتوں میں برصغیرٖٖٖٖٖٖٖٖ کی قدیم چھتیس راج کلی میں جاٹوں کا نام ضرور ملتا ہے لیکن کہیں بھی انہیں راجپوت ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ اس آخری جملے میں بنیاد یہ ہے کہ راجپوت رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔
اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسلے کا اصل نقطہ ہے ایک راج پوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارہ نہ تھا۔
بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کہ کوہ آبو کی قربانی کے موقعہ پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود جاٹ کہلائے۔
سلطان محمود غزنوی کو ہند پر حملوں کے دوران بڑا تنگ کیا۔ چنانچہ ایک حملہ خاص طور پر ان کے خاتمہ کے لئے کیا اور چھ سو کی تعداد میں خاص قسم کی کشتیاں تیار کرائیں جس میں تین تین برچھے لگے ہوئے تھے۔ ان کشتیوں کو دریائے سندھ میں دال کر ہر کشتی پر بیس بیس سپاہی تعنات کئے اور باقی ماندہ فوج کو دریائے سندھ کے کنارے پیدل چلنے کا حکم دیا۔
جاٹوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بیوی بچے کسی جزیرے پر بھیج کرکوئی چار ہزار یا آتھ ہزار کشتیوں پر سوار ہوکر محمود غزنوی کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ باوجود کثرت کے کثیر تعداد میں جاٹ مارے گئے۔ محمود غزنوی نے جزیرے پر پہنچ کر جاٹوں کے اہل و عیال کو گرفتار کرلیا۔
اورنگزیب جس زمانے میں دکن میں مصروف تھا، جاتوں نے غنیمت جان کر اپنے سرداروں کی قیادت میں عام آبادی پر حملے کئے۔ یہاں تک انہوں نے اکبر کے مقبرے کو توڑنے کی کوشش کی۔ اورنگ زیب نے ان کی سرکوبی کے لئے مقامی فوجداروں کو مقرر کیا۔ لیکن جب اورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو بھرت پور اور اس گرد نواح کے جاٹوں نے اپنے سردار سورج مل کی سردگی میں آگرہ اور دہلی کے درمیانی علاقہ میں دہشت پھیلادی۔ ان کے ظلم و ستم سے غضبناک ہوکر احمد شاہ ابدالی نے ان کی گوشمالی کی۔ لیکن ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکا۔ بعد میں رنجیت سنگھ ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ریاست مختصر عرصہ کے لئے قائم ہوئی تھی۔
سکھ جو اٹھارویں صدی کے آخر تک پنجاب کے حاکم بن چکے تھے۔ ان کی سلطنت کے قیام میں نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بھر پور مدد دی اور ان حملوں کی بدولت مغلیہ سلطنت نہایت کمزور ہوگئی، اور سکھ ایک قوت کے ساتھ ابھرے اور انہوں نے مغلیہ سلطنت کے ذوال کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ سکھوں کی اکثریت جٹوں پر مشتمل تھی اور جٹوں کا عمل دخل بہت تھا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزوں کے خلاف تحریک جلی جس کا مشہور سلوگن ’جٹا پگڑی سنھال جٹا‘ تھا۔ اس تحریک میں حصہ لینے والے بھی سکھ تھے۔ اس کا روح رواں مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا چچا۔
سطر 42:
جٹ گوت اور راجپوت گوت ملتا جلتا ہے پهر ساته میں گورا نے جو تاریخ لکها اس کے حساب سے ہم سب جٹ گوت کے راجپوت نسل سے ہیں۔
* == جٹوں کا مذہب ==
جاٹوں میں تین مذہب کے لوگ ہیں۔ مسلمان جو دریائے سندھ کے نچلے والے حصہ میں رہتے ہیں، سکھ پنجاب میں اور ہندو جو راجپوتانہ میں رہتے ہیں۔
* == جاٹ قبائل ==
* == ابر = ایلاوت == اندار == آنتل == آریہ == ایساکھ == اتوال == عطری == اولکھ == اونکھ == اوہلان == اوجھلان== اوجلہ == اتار == اوہلان == اوڈھران ==
* == ببر == بگداوت == بجاد == باجوہ == بل == بلہن == بلہار == بان == بینس / ونیس == بسی == باٹھ == بلاری == بنہوال == بھنگال/ بھگو == بھنڈر == بھلی == بیلا == بسرا == بھیڈی == بھوپارائے == بھلر == بھڑنگ == بسلا == برار == بدھوار == بورا == بسرا == بھمبو ==
* == پاہل پ == لاول == پنکھال == پائے سر == پنیچ == پنوں == پنیگ == پریہار == پرودا == پھور == پھاروے == پھوگٹ == پھلکا == پیرو == پوتالیا == پونیا == پنگال == پلکھا == پرادا ==
* == پوتل/پوتلیا == تنوار == تور == تھنڈ ==
* == ٹکھر ==ٹاہلان == ٹنگ == ٹک == ٹاٹڑان == ٹبواتھیا == ٹھاکران == ٹوانہ == ٹسار ==ٹومر ==
* == جکھد == جگلین جلوٹا == جنجوعہ == جہل == جنوار == جٹاسرا == جڑانہ == جھاجھریا == جوئیہ == جون/ ہون == جوڑا == جاکھڈ ==
* == چاہل == چھٹہ == چوہان/چوہان == چبک == چیمہ == چھلڑ == چھکارا == چھونکر == چھینا == چمنی == چدھڑ ==
* == دباس /دواس == ڈاگر/ داگر == دھاما == ڈھا/ ڈہایا == دلال == ڈھیل/ول == ڈالتا == ڈانگی == دراد == ڈسوالاس == دیول == دھامی/دھاما == ڈھالیوال == ڈھاکا == دھنکھڈ == ڈھانچ == ڈھانڈا ==== دھنویا == دھارن == ڈھلون == ڈھنڈسا == دھنڈ وال == ڈھونچک== دھل == دوہان == ڈاہیا ==
* == رائے == [[رانجھا]]ا == راٹھی == راٹھول == راٹھور == رندھاوا == راپادیا == راوت == ریڈھو == ریار == راج == روہیل/روہیلہ == راسٹری ==
* == سانولہ == سہوتا == سہروت == سلار == سلکان == سامل == سمرا == سہن پال == سنگا == سنگدا == سنگوان == سنسوار == سندھو == سپرا == سرن == سروہا/ سروہی == سراٹھ == ساسی ==سیکھون == سیوچ == سیوکند== سیوران == شاہی == شیر == گل سویا ==سنگروت == سدھو == کاوار == سوہل == سولگی == سولنگی == سوہاک == سیال ==
* == کھنگس== کادیان== کجلا == کاک == کاکڑاں / کاکڑ== کاٹھیا == کلان == کاہلون == کلکل == کانگ
رائے،کھرل == کٹاری == کشوان == کھر == کھیر == کھرپ/ کھرب == کھتری == کھٹکل == کھوکھر== کلیر == کوہاد == کلار == کوندو == کنتل == کٹاریا/کٹار ==
سطر 71:
بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ
اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ
سیّد سبط الحسن صغیم، سکھ جزبوں کا سفر، سکھ دلوں کی کہانی۔ قومی ڈائجسٹ
احمد یار خان، رات کا راز
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، تقلیمات چچ نامہ
لی بان، تمذن ہند
اکرام علی ملک۔ تاریخ پنجاب
سطر 80:
حامد اللہ کوفی، چچ نامہ
ابسن پنجاب کی ذاتیں
 
[[زمرہ:تاریخ سندھ]]
[[زمرہ:بھارت کے معاشرتی گروہ]]
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/جاٹ»