"الانفال" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← (164), ← (80), ← (40) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 19:
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی آٹھویں سورت جس میں 75 آیات اور 10 رکوع ہیں۔
 
== زمانۂ نزول ==
 
یہ سورت 2 ھ میں [[غزوۂ بدر|جنگ بدر]] کے بعد نازل ہوئی اور اس میں اسلام و کفر کی اس پہلی جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک سورت کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالبا{{دوزبر}} یہ ایک ہی تقریر ہے جو بیک وقت نازل فرمائی گئی ہوگی مگر ممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدر ہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعد میں اتری ہوں اور پھر ان کو سلسلۂ تقریر میں مناسب مقامات پر درج کرکے ایک مسلسل تقریر بنادیا گیا ہو۔ بہرحال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتا جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ یہ الگ الگ دو تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔
 
== تاریخی پس منظر ==
 
سورت پر تبصرے سے قبل جنگ بدر اور اس سے تعلق رکھنے والے حالات پر تاریخی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
 
حضرت [[محمد {{درود}}]] کی دعوت ابتدائی دس بارہ سال میں، جبکہ آپ [[مکہ|مکہ معظمہ]] میں مقیم تھے، اس حیثيت سے اپنی پختگی اور استواری ثابت کرچکی تھی کہ ایک طرف اس کی پشت پر ایک بلند سیرت، عالی ظرف اور دانشمندانہ علمبردار موجود تھا جو اپنی شخصیت کا پورا سرمایہ اس کام میں لگا چکا تھا اور اس کے طرز عمل سے یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہوچکی تھی کہ وہ اس دعوت کو انتہائی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے اٹل ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کی راہ میں ہر خطرے کو انگیز کرنے اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں خود ایسی کشش تھی کہ وہ دلوں اور دماغوں میں سرایت کرتی چلی جارہی تھی اور جہالت و جاہلیت اور تعصبات کے حصار اس کی راہ روکنے میں ناکام ثابت ہورہے تھے۔ اسی وجہ سے عرب کے پرانے نظام جاہلی کی حمایت کرنے والے عناصر، جو ابتدا{{دوزبر}} اس کو استخفاف کی نظر سے دیکھتے تھے، مکی دور کے آخری زمانے میں اسے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنے لگے تھے اور اپنا پورا زور اسے کچل دینے میں صرف کردینا چاہتے تھے۔ لیکن ا{{پیش}} وقت تک چند حیثیات سے اس دعوت میں بہت کچھ کسر باقی تھی:
 
اولا{{دوزبر}}، یہ بات ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئی تھی کہ اس کو ایسے پیرووں کی ایک کافی تعداد بہم پہنچ گئی ہے جو صرف اس کے ماننے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کے اصولوں کا سچا عشق بھی رکھتے ہیں، اس کو غالب و نافذ کرنے کی سعی میں اپنی ساری قوتیں اور اپنا تمام سرمایۂ زندگی کھپادینے کے لیے تیار ہیں، اور اس کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کردینے کے لیے دنیا بھر سے لڑجانے کے لیے حتی{{ا}} کہ اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کو بھی کاٹ پھینکنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اگرچہ مکہ میں پیروان{{زیر}} اسلام نے قریش کو ظلم و ستم برداشت کرکے اپنی صداقت{{زیر}} ایمانی اور اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کی مضبوطی کا اچھا خاصا ثبوت دے دیا تھا، مگر ابھی یہ ثابت ہونے کے لیے بہت سی آزمائش باقی تھیں کہ دعوت{{زیر}} اسلامی کو جانفروش پیرووں کا وہ گروہ میسر آگیا ہے جو اپنے نصب العین کے مقابلے میں کسی چیز کو بھی عزیز تر نہیں رکھتا۔
 
ثانیا{{دوزبر}} اس دعوت کی آواز اگرچہ سارے ملک میں پھیل گئی تھی، لیکن اس کے اثرات منتشر تھے، اس کی فراہم کردہ قوت سارے ملک میں پراگندہ تھی، اس کو وہ اجتماعی طاقت بہم نہ پہنچی تھی جو پرانے جمے ہوئے نظام جاہلیت سے فیصلہ کن مقابلے کے لیے ضروری تھی۔
 
ثالثا{{دوزبر}} اس دعوت نے زمین میں کسی بھی جگہ جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ابھی تک وہ صرف ہوا میں سرایت کررہی تھی۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں وہ قدم جما کر اپنے موقف کو مضبوط کرتی اور پھر آگے بڑھنے کی سعی کرتی۔ ا{{پیش}} وقت تک جو [[مسلمان]] جہاں بھی تھا اس کی حیثیت نظام کفر و شرک میں بالکل ایسی تھی جیسے خالی معدے میں ک{{پیش}}ن{{زیر}}ین، کہ معدہ ہر وقت اسے ا{{پیش}}گل دینے کے لیے زور لگا رہا ہو اور قرار پکڑنے کے لیے اس کو جگہ ہی نہ ملتی ہو۔
 
رابعا{{دوزبر}} اس وقت تک اس دعوت کو عملی زندگی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے موقع نہیں ملا تھا، نہ یہ اپنا تمدن قائم کرسکی تھی، نہ اس نے اپنا نظام{{زیر}} معیشت و معاشرت اور نظام سیاست مرتب کیا تھا اورنہ دوسری طاقتوں سے اس کے معاملات{{زیر}} صلح و جنگ پیش آئے تھے۔ اس لیے نہ تو ان اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ ہوسکا تھا جن پر یہ دعوت زندگی کے پورے نظام کو قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی، اور نہ یہی بات آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح نمایاں ہوئی تھی کہ اس دعوت کا پیغمبر اور اس کے پیرووں کا گروہ جس چیز کی طرف دنیا کو دعوت دے رہا ہے اس پر عمل کرنے میں وہ خود کس حد تک راستباز ہے۔
 
بعد کے واقعات نے وہ مواقع پیدا کردیے جن سے یہ چاروں یکساں پوری ہوگئیں۔
 
مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے [[یثرب]] میں آفتاب{{زیر}} اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جارہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارہویں سال [[حج]] کے موقع پر 75 نفوس کا ایک وفد نبی {{درود}} سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ [[اسلام]] قبول کیا بلکہ آپ کو اور آپ کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی {{درود}} نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہل{{زیر}} یثرب نبی {{درود}} کو محض ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیرووں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا کہ وہ اکی اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں، بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنالیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل اپنے آپ کو "مدینۃ الاسلام" کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی {{درود}} نے اسے قبول کرکے عرب میں پہلا [[دار الاسلام|دارالاسلام]] بنایا۔
 
اس پیشکش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل [[مدینہ منورہ|مدینہ]] ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلے میں پیش کررہا تھا۔ چنانچہ بیعت{{زیر}} ع{{زبر}}ق{{زبر}}بہ کے موقع پر رات کی ا{{پیش}}س مجلس میں اسلام کے ان اولین مدد گاروں (انصار) نے اس نتیجے کو خوب اچھی طرح جان کر نبی {{درود}} کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جبکہ بیعت ہورہی تھی۔ یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن [[اسعد بن زرارہ]] رضی اللہ عنہ جو پورے وفد میں سب سے کم سن تھے، اٹھ کر کہا:
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
 
سطر 59:
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
"جانتے ہو اس شخص سے کس چیز کی بیعت کررہے ہو؟ (آوازیں: ہاں ہم جانتے ہیں) تم ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارے مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم انہیں دشمنوں کے حوالے کردوں تو بہتر ہے کہ آج ہی انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود نباہو گے تو بے شک ان کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے"۔
</blockquote>
 
اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا کہ
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
"ہم انہیں لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں"
سطر 82:
تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں "[[بیعت عقبہ ثانیہ]]" کہتے ہیں۔
 
دوسری طرف اہل مکہ کے لیے یہ معاملہ جو معنی رکھتا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمد{{درود}} کو، جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیتوں سے [[قریش]] کے لوگ واقف ہوچکے تھے، ایک ٹھکانہ میسر آرہا تھا اور ان کی قیادت و رہنمائی اور پیروان{{زیر}} اسلام، جن کی عزیمت و استقامت اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں مجتمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کے مجتمع ہونے سے قریش کو مزید یہ خطرہ تھا کہ [[یمن]] سے [[شام]] کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحل [[بحیرہ احمر]] کے کنارے کنارے جاتی تھی، جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا، وہ مسلمانوں کی زد میں آجاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظام{{زیر}} جاہلی کی زندگی دشوار کرسکتے تھے اور صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔
 
قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے، جس رات [[بیعت عقبہ]] واقع ہوئی اسی رات اس معاملے کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہل مدینہ کو نبی {{درود}} سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہوگیا کہ اب محمد{{درود}} بھی وہاں منتقل ہوجائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ [[ہجرت مدینہ|ہجرت نبوی]] سے چند روز پہلے قریش کی مجلس شوری{{ا}} منعقد ہوئی جس میں بڑی رد و کد کے بعد آخر کار یہ طے پاگیا کہ [[بنو ھاشم|بنی ہاشم]] کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب مل کر محمد {{درود}} کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہوجائے اور وہ انتقام کے بجائے خوں بہا قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں لیکن خدا کے فضل اور نبی {{درود}} کے اعتماد علی اللہ اور ح{{پیش}}سن{{زیر}} تدبیر سے ا{{پیش}}ن کی یہ چال ناکام ہوگئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
 
اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے مدینہ کے سردار [[عبداللہ بن ا{{پیش}}بی]] کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کر چکے تھے اورجس کی تمناؤں پر حضور{{درود}} کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہوجانے سے پانی پھر چکا تھا) خطا لکھا کہ"تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اس سے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے"۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادۂ شر ہوا،مگر نبی {{درود}} نے بروقت اس کے شر کی روک تھام کردی۔ پھر [[سعد بن معاذ]] رئیس مدینہ عمرے کے لیے گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر [[ابوجہل|ابو جہل]] نے ان کو ٹوک کر کہا: "تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمینان سے مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم [[امیہ بن خلف]] کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جاسکتے تھے۔ سعد نے جواب میں کہا: "بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری رہ گذر"۔یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت [[خانہ کعبہ|بیت اللہ]] کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین کے لیے پر خطر ہے۔
 
اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل جن کا مفاد اس راستے سے وابستہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ و مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی {{درود}} نے نوخیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی [[یہودی]] آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ منعطف فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے پر حضور نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔
 
ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحیرہ احمر کے درمیان اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم از کم ناطرفداری کے معاہدے کرلیں۔ چنانچہ اس میں آپ کو پوری کامیابی ہوئی۔ سب سے پہلے ج{{پیش}}ہ{{زبر}}ین{{زبر}}نہ سے، جو ساحل کے قریب پہاڑی علاقے میں ایک اہم قبیلہ تھا، معاہدۂ ناطرفداری طے ہوا۔ پھر 1ھ کے آخر میں بنی ض{{زبر}}مر{{زبر}}ہ سے، جن کا علاقہ ی{{زبر}}نب{{پیش}}ع اور ذوالع{{پیش}}ش{{زبر}}یرہ سے متصل تھا، دفاعی معاونت (Defensive alliance) کی قرارداد ہوئی۔ پھر 2ھ کے وسط میں بنی م{{پیش}}دل{{زیر}}ج بھی اس قرارداد میں شریک ہوگئے کیونکہ وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اور حلیف تھے۔ مزید برآں تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں اسلام کے حامیوں اور پیرووں کا بھی ایک اچھا خاصا عنصر پیدا کردیا۔
 
دوسری تدبیر آپ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لیے اس شاہراہ پر پیہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ خود بھی تشریف لے گئے۔ پہلے سال اس طرح کے چار دستے گئے جو مغازی کی کتابوں میں [[سریہ حمزہ]]، [[سریہ عبیدہ بن حارث]]، [[سریہ سعد بن ابی وقاص]] اور [[غزوۃ البواء]] کے نام سے موسوم ہیں۔
 
اور دوسرے سال کے ابتدائی مہینوں میں دو مزید تاختیں اسی جانب کی گئیں جن کو اہل مغازی [[غزوۂ بواط]] اور [[غزوۂ ذوالع{{پیش}}ش{{زبر}}یرہ]] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان تمام مہمات کی دو خصوصیتیں قابل لحاظ ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے کسی میں نہ تو کشت و خون ہوا اور نہ کوئی قافلہ لوٹا گیا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تاختوں کا اصل مقصود قریش کو ہوا کا رخ بتانا تھا۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے کسی تاخت میں بھی حضور{{درود}} نے اہل مدینہ کا کوئی آدمی نہیں لیا بلکہ تمام دستے خالص مکی مہاجرین سے ہی مرتب فرماتے رہے تاکہ حتی الامکان یہ کشمکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں تک محدود رہے اور دوسرے قبائل کے اس میں الجھنے سے آگ پھیل نہ جائے۔ ادھر سے اہل مکہ بھی مدینہ کی طرف غارت گر دستے بھیجتے رہے، چنانچہ انہی میں سے ایک دستے نے ک{{پیش}}رز بن جابر الفہری کی قیادت میں عین مدینہ کے قریب ڈاکہ مارا اور اہل مدینہ کے مویشی لوٹ لیے۔ قریش کی کوشش اس سلسلے میں یہ رہی کہ دوسرے قبائل کو بھی اس کشمکش میں الجھادیں، نیز یہ کہ انہوں نے بات کو محض دھمکی تک محدود نہ رکھا بلکہ لوٹ مار تک نوبت پہنچادی۔
 
حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ شعبان 2ھ (فروری یا مارچ 623ء) میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ، جس کے ساتھ تقریبا{{دوزبر}} 50 ہزار اشرفی کا مال تھا اور تیس چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے، شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقے میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا۔ چونکہ مال زیادہ تھا، محافظ کم تھے اور سابق حالات کی بنا پر قوی خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے، اس لیے سردار{{زیر}} قافلہ [[ابو سفیان بن حرب|ابو سفیان]] نے اس پر خطر علاقے میں پہنچتے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے تحت اپنے اونٹ کے کان کاٹے۔ اس کی ناک چیر دی، کجاوے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنا قمیص آگے پیچھے سے پھاڑ کر شور مچانا شروع کردیا کہ:
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
 
سطر 109:
</blockquote>
 
اس پر سارے مکہ میں ہیجان برپا ہوگیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ تقریبا{{دوزبر}} ایک ہزار مردان جنگی جن میں سے 600 زرہ پوش تھے اور 100 سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا، پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لیے چلے۔
 
ان کے پیش نظر صرف یہی کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچا لائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں اور مدینہ میں یہ مخالف طاقت جو ابھی نئی نئی مجتمع ہوئی ہے اسے کچل ڈالیں اور اس کے نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کردیں کہ آیندہ کے لیے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہوجائے۔
 
اب نبی {{درود}} نے، جو حالات سے ہمیشہ با خبر رہتے تھے، محسوس فرمایا کہ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جبکہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہوجائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ نئے دار الہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ [[مہاجرین]] بے سر و سامان، [[انصار]] ابھی ناآزمودہ، [[یہودی]] قبائل برسر مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر موجود اور گرد و پیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہبا{{دوزبر}} ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ [[عرب]] کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان و مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بنا پر نبی {{درود}} نے عزم فرمالیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں۔
 
اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کرکے آپ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آرہا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلے پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں ایک بڑے گروہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے۔ لیکن نبی {{درود}} کے پیش نظر کچھ اور تھا اس لیے آپ نے اپنا سوار دہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے [[مقداد بن عمرو]] نے اٹھ کر کہا:
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
 
سطر 128:
</blockquote>
 
مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی اور ان کے لیے آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے اول روز کیاا تھا اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے حضور{{درود}} نے براہ راست ان کو مخاطب کیے بغیر پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس پر [[سعد بن معاذ]] اٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
 
سطر 141:
</blockquote>
 
ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہوگیا کہ قافلے کے بجائے لشکر قریش ہی کے مقابلے پر چلنا چاہیے لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا، جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اٹھے تھے ان کی تعداد 300 سے کچھ زائد تھی (86 مہاجر، 61 قبیلۂ اوس کے اور 170 قبیلۂ خزرج کے) جن میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے 170 سے زیادہ اونٹ نہ تھے جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا، صرف 60 آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسی لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ، جو اگرچہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کررہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنادیا ہے۔ مگر نبی اور مومنین صادقین یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہی ہے اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب{{زیر}} مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آرہا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی رہ لی جاتی۔
 
17 رمضان المبارک کو [[بدر]] کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے ہوئے اور نبی {{درود}} نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا
ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہوگیا کہ قافلے کے بجائے لشکر قریش ہی کے مقابلے پر چلنا چاہیے لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا، جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اٹھے تھے ان کی تعداد 300 سے کچھ زائد تھی (86 مہاجر، 61 قبیلۂ اوس کے اور 170 قبیلۂ خزرج کے) جن میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے 170 سے زیادہ اونٹ نہ تھے جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا، صرف 60 آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسی لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ، جو اگرچہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کررہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنادیا ہے۔ مگر نبی اور مومنین صادقین یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہی ہے اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب{{زیر}} مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آرہا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی رہ لی جاتی۔
 
17 رمضان المبارک کو [[بدر]] کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے ہوئے اور نبی {{درود}} نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
 
خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں، خداوند! بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔
</blockquote>
 
اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان [[مہاجرین مکہ]] تھا کہ جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گذرسکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہو اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جارہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقت{{زیر}} ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرور و طاقت کے باوجود ان بے سر و سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ ان کے 70 آدمی مارے گئے، 70 قید ہوئے اور ان کا سر و سامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گلہائے سرسبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابل لحاظ طاقت بنادیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے کہ
 
<blockquote style="
padding: 1em;
border: 1px dashed #2f6fab;
color: black;
background-color: #EFEFEF;
line-height: 1.1em;
">
 
سطر 174 ⟵ 173:
یہ ہے وہ عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورت میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ مگر اس تبصرے کا انداز تمام ا{{پیش}}ن تبصروں سے مختلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتحیابی کے بعد کیا کرتے ہیں۔
اس میں سب سے پہلے ان خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اخلاقی حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں۔
پھر ان کو بتایا گیا کہ اس فتح میں تائید ال{{ا}}ہی کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرات و شہامت پر نہ پھولیں بلکہ خدا پر توکل اور خدا و رسول کی اطاعت کا سبق لیں۔
پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکۂ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انہیں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
پھر مشرکین اور منافقین اور یہود اور ان لوگوں کو جو جنگ میں قید ہو کر آئے تھے، نہایت سبق آموز انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔
پھر ان اموال کے متعلق، جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے، مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں اپنا مال نہ سمجھیں بلکہ خدا کا مال سمجھیں، جو کچھ اللہ اس میں سے ان کا حصہ مقرر کرے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیں اور جو حصہ اللہ اپنے کام اور اپنے غریب بندوں کی امداد کے لیے مقرر کرے اس کو برضا و رغبت گوارا کرلیں۔
پھر قانون جنگ و صلح کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں جن کی توضیح اس مرحلے میں دعوت اسلامی کے داخل ہوجانے کے بعد ضروری تھی تاکہ مسلمان اپنی صلح و جنگ میں جاہلیت کے طریقوں سے بچیں اور دنیا پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو اور دنیا کو معلوم ہوجائے کہ اسلام اول روز سے اخلاق پر عملی زندگی کی بنیاد رکھنے کی جو دعوت دے رہا ہے اس کی تعبیر واقعی عملی زندگی میں کیا ہے۔
پھر اسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے [[دار الاسلام|دارالاسلام]] کے مسلمان باشندوں کی آئینی حیثیت ان مسلمانوں سے الگ کردی گئی ہے جو دارالاسلام کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔
 
 
 
{{سورت
سطر 188 ⟵ 185:
|[[التوبہ]]
}}
 
[[زمرہ:سورتیں]]