"ممتاز شیریں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ: {{Infobox writer | name = ممتاز شیریں | image = | imagesize = 180px | caption = | pseudonym = ممتاز شیریں | birth_name = | birth_date = {{birth date|1924|...
 
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 21:
| genre = [[افسانہ]]، [[تنقید]]، [[ترجمہ]]
| subject =
| notableworks = ظلمت نیم روز،روز<br /> درشہوار<br />منٹو، نوری نہ ناری
| influences =
| influenced =
سطر 31:
}}
 
'''ممتاز شیریں''' (پیدائش: [[12 ستمبر]] [[1924ء]]- وفات: [[11 مارچ]] [[1973ء]]) [[پاکستان]] سے تعلق رکھنے والی [[اردو]] کی پہلی خاتون [[نقاد]] ، افسانہ نگار مترجم اور ادبی مجلے "نیا دور" کی مدیر تھیں۔
 
== حالات زندگی ==
سطر 37:
ممتاز شیریں [[12 ستمبر]] [[1924ء]] کوہندو پور، [[آندھرا پردیش]] ، [[برطانوی ہندوستان]] میں پیدا ہوئیں۔ <ref name="pakistanconnections.com">[http://www.pakistanconnections.com/history/index/2013-09-12/1184 ممتاز شیریں ، پاکستانی کنیکشنز، برطانیہ]</ref><ref>ممتاز شیریں - ناقد، کہانی کار مصنف ابو بکر عباد، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2006ء</ref>
 
ممتاز شیریں کے نانا ٹیپو قاسم خان نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی خاطر اپنے پاس [[میسور]] بلا لیا ۔اس طرح وہ بچپن ہی میں اپنے ننھیال میں رہنے لگیں ۔ممتاز شیریں کے نانا اور نانی نے اپنی اس ہو نہار نواسی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔وہ خود بھی تعلیم یافتہ تھے اور گھر میں علمی و ادبی ماحول بھی میسر تھا ۔ممتاز شیریں ایک فطین طالبہ تھیں انھوں نے تیرہ (13)برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا ۔ان کے اساتذہ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے ۔[[1941ء]] میں ممتاز شیریں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی اے کا امتحان پاس کیا ۔[[1942ء]] میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ممتاز شیریں نے [[1944ء]] میں اپنے شوہر صمد شاہین سے مل کر بنگلور سے ایک ادبی مجلے "نیا دور" کی اشاعت کا آغاز کیا۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسائل ادب اور تخلیقی محرکات کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے لانے کی سعی کی گئی ۔صمد شاہین پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے ۔انھوں نے وکالت کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ [[حکومت پاکستان]] میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے بیورو آف ریفرنس اینڈ ریسرچ میں جوا ئنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے ۔ ممتاز شیریں نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ان کی سنجیدگی ،فہم و فراست ،تدبر و بصیرت اور وسیع مطالعہ نے انھیں سب کی منظور نظر بنا دیا ۔ہر جماعت میں وہ اول آتیں اور ہر مضمون میں امتحان میں وہ سر فہرست رہتیں ۔[[قیام پاکستان]] کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کر کے [[کراچی]] پہنچا ۔[[کراچی]] آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے "نیا دور" کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کاآغاز ہو گیا لیکن [[1952ء]] میں ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی ۔ادبی مجلہ "نیادور" ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ [[پاکستان]] آنے کے بعد ممتاز شیریں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور انگریزی ادبیات میں ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔جامعہ۔[[جامعہ کراچی]] سے [[ایم اے]] ( انگریزی) کرنے کے بعد ممتاز شیریں [[برطانیہ]] چلی گئیں اور [[آکسفورڈ یونیورسٹی]] میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیااور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کیا ۔ممتاز شیریں کی دلی تمنا تھی کہ [[آکسفورڈ یونیورسٹی]] میں ان کی تعلیم جاری رہے اور وہ اس عظیم جامعہ سے ڈاکٹریٹ (ڈی فل )کریں لیکن بعض ناگزیر حالات اور خاندانی مسائل کے باعث وہ اپنا نصب العین حاصل نہ کر سکیں اور انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے پاکستان وا پس آنا پڑا ۔اس کا انھیں عمر بھر قلق رہا۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
== ادبی خدمات ==
سطر 44:
 
=== عالمی ادبی کانفرنس میں شرکت ===
[[1954ء]] میں [[ہالینڈ]] کے دار الحکومت [[ہیگ]] میں ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ا س عالمی ادبی کانفرنس میں عالمی ادب اور انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میںوقیع مقالات پیش کیے گئے ۔ممتاز شیریں کو اس عالمی ادبی کانفرنس میں [[پاکستان]] کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔اس عالمی ادبی کانفرنس میں ممتاز شیریں نے دنیا کے نامور ادیبوں سے ملاقات کی اور عالمی ادب کے تناظر میں عصری آگہی کے موضوع پر ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ادب کو وہ زندگی کی تنقید اور درپیش صورت حال کی اصلاح کے لیے بہت اہم سمجھتی تھیں ۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
=== تنقید ===
سطر 52:
 
=== تراجم ===
ممتاز شیریں کو انگریزی ،اردو ،عربی، فارسی اور پاکستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس حاصل تھی ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا ۔زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں ۔ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیںا ور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی سے اس کے نہاں خانہ دل میں جا گزیں تھا ۔اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولہ ءتازہ پیدا ہوتا ہے ۔ ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں ۔تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں، نئے امکانات ،نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاںخوبینمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں ۔ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو [[تنقید]] پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد دکھائی نہیں دیتی ۔ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کردیا ۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے تاریخ ادب میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لا ئق صد رشک و تحسین کا م اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔ <ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
== تصانیف ==
سطر 79:
 
== ملازمت ==
ممتاز شیریں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں [[حکومت پاکستان]] کی وفاقی وزارت تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات پر مامور تھیں ۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
== وفات ==
ممتاز شیریں کو 1972میں پیٹ کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا ۔مرض میں اس قدر شدت آگئی کہ 11مارچ[[11 1973کومارچ]] [[1973ء]] کو پولی کلینک [[اسلام آباد]] میں وہ انتقال کر گئیں <ref name="pakistanconnections.com"/><ref>ممتاز شیریں - ناقد، کہانی کار مصنف ابو بکر عباد، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2006ء</ref>۔ تانیثیت (Feminism) کی علم بردار حرف صداقت لکھنے والی اس با کمال ،پر عزم ،فطین اور جری تخلیق کار کی الم ناک موت نے [[اردو ادب]] کو نا قابل اندمال صدمات سے دوچار کر دیا۔۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
== حوالہ جات ==