"شیریں فرہاد (فلم)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7:
لیکن بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ نہر کے بہتے پانی کو دودھ میں کس طرح تبدیل کیا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد پنچولی نے فلم کی ہدایتکاری کا فریضہ اس زمانے کے ایک مشہور کیمرہ مین پی۔دت کو سونپ دیا جوکہ ٹرِک فوٹوگرافی کے ماہر تھے۔پنچولی نے انھیں کھلی چھُوٹ دی کہ وہ ’سپیشل ایفکٹس‘ پر جتنا پیسہ چاہیں خرچ کر سکتے ہیں، اور دت صاحب نے بھی پنچولی کی اس دریا دلی کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔
 
خسرو پرویز کے شاندارمحلشاندار محل کا جو نقشہ پنچولی کے ذہن میں تھا اسے عملی شکل دینا کسی عام آرٹ ڈائریکٹر کے بس کی بات نہ تھی چنانچہ بڑی ردّوکد کے بعد این ایم خواجہ کو اس کام پر مامور کیا گیا جنھوں نے اُس وقت تک کی ہندوستانی فلمی تاریخ کے سب سے بڑے سیٹ تیار کرائے اور ان کی تزئین و آرائش پر اپنا سارا ہُنرہنر صرف کر دیا۔
 
فلم کی موسیقی کے لئے اُس زمانے کے سب سے کامیاب موسیقار[[ غلام حیدر]] پر پنچولی کی نگاہ تھی لیکن انہیں بمبئی سے بلاوے پر بلاوے آرہے تھے چنانچہ پروڈ کشن والوں کی کسی معمولی سی بات پہ ناراض ہو کر غلام حیدر عازمِ بمبئی ہو گئے اور شیریں فرہاد کی موسیقی مرتب کرنے کا بھاری فریضہ ایک غیر معروف مگر ہونہار نوجوان کے کاندھوں پر آن پڑا۔ اس نوجوان کا نام تھا [[رشید عطرے]] ۔
 
ابھی فلم زیرِتکمیلزیرتکمیل ہی تھی کہ سارے ہندوستان میں اس کی دھوم مچ گئی اور تقسیم کاروں نے بڑی بڑی رقوم کا ایڈوانس پیش کرنا شروع کر دیا۔ یہ فلم اٹھارہ لاکھ میں فروخت ہوئی جو کہ اُس زمانے کے لحاظ سے ایک محّیرالعقولمحیرالعقول رقم تھی۔ جس طمطراق سے یہ فلم نمائش کے لئے پیش ہوئی تھی اتنی ہی شدید لعن طعن سے ناظرین نے اسے مسترد کر دیا۔
شاید لوگ فرہاد کو زمانہء جدید کے ایک انجینئرکےانجینئر کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اُن کے ذہن میں خستہ تن، تیشہ بدست فرہاد کا وہی کلاسیکی تصّورتصوّر تھا ۔ یوں یہ فلم ناکام رہی۔
 
شیریں فرہاد کے فلاپ ہوتے ہی لالی وڈ کے محل پر دس برس سے لہراتا پنچولی کا پھریرا سرنگوں ہو گیا ۔