"ممتاز شیریں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35:
== حالات زندگی ==
=== پیدائش و تعلیم ===
ممتاز شیریں [[12 ستمبر]] [[1924ء]] کوہندو پور، [[آندھرا پردیش]] ، [[برطانوی ہندوستان]] میں پیدا ہوئیں۔ <ref name="pakistanconnections.com">[http://www.pakistanconnections.com/history/index/2013-09-12/1184 ممتاز شیریں ، پاکستانی کنیکشنز، برطانیہ]</ref><ref>ممتاز شیریں - ناقد، کہانی کار مصنف ابو بکر عباد، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2006ء</ref> ممتاز شیریں کے نانا ٹیپو [[قاسم خان]] نے اپنی اس نواسی کو [[تعلیم و تربیت]] کی خاطر اپنے پاس [[میسور]] بلا لیا ۔اس طرح وہ بچپن ہی میں اپنے ننھیال میں رہنے لگیں ۔ممتاز شیریں کے نانا اور نانی نے اپنی اس ہو نہار نواسی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔وہ خود بھی تعلیم یافتہ تھے اور گھر میں علمی و ادبی ماحول بھی میسر تھا ۔ممتاز شیریں ایک فطین طالبہ تھیں انھوں نے تیرہ (13)برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا ۔ان کے اساتذہ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے ۔[[1941ء]] میں ممتاز شیریں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی اے کا امتحان پاس کیا ۔[[1942ء]] میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ممتاز شیریں نے [[1944ء]] میں اپنے شوہر صمد شاہین سے مل کر [[بنگلور]] سے ایک ادبی مجلے "نیا دور" کی اشاعت کا آغاز کیا۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسائل ادب اور تخلیقی محرکات کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے لانے کی سعی کی گئی ۔صمد شاہین پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے ۔انھوں نے وکالت کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ [[حکومت پاکستان]] میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے [[حکومت پاکستان]] کے بیورو آف ریفرنس اینڈ ریسرچ میں جوا ئنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے ۔ ممتاز شیریں نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ان کی سنجیدگی ،فہم و فراست ،تدبر و بصیرت اور وسیع مطالعہ نے انھیں سب کی منظور نظر بنا دیا ۔ہر جماعت میں وہ اول آتیں اور ہر مضمون میں امتحان میں وہ سر فہرست رہتیں ۔[[قیام پاکستان]] کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کر کے [[کراچی]] پہنچا ۔[[کراچی]] آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے "نیا دور" کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کاآغاز ہو گیا لیکن [[1952ء]] میں ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی ۔ادبی مجلہ "نیادور" ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ [[پاکستان]] آنے کے بعد ممتاز شیریں نے [[جامعہ کراچی]] میں داخلہ لیا اور انگریزی ادبیات میں [[ایم اے]] کی ڈگری حاصل کی ۔[[جامعہ کراچی]] سے [[ایم اے]] ( انگریزی) کرنے کے بعد ممتاز شیریں [[برطانیہ]] چلی گئیں اور [[آکسفورڈ یونیورسٹی]] میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیااور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کیا ۔ممتاز شیریں کی دلی تمنا تھی کہ [[آکسفورڈ یونیورسٹی]] میں ان کی تعلیم جاری رہے اور وہ اس عظیم جامعہ سے ڈاکٹریٹ (ڈی فل )کریں لیکن بعض ناگزیر حالات اور خاندانی مسائل کے باعث وہ اپنا نصب العین حاصل نہ کر سکیں اور انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے پاکستان وا پس آنا پڑا ۔اس کا انھیں عمر بھر قلق رہا۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
== ادبی خدمات ==
=== [[افسانہ نگاری]] ===
ممتاز شیریں نے 1942میں تخلیق ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ان کا پہلا افسانہ "انگڑائی" ادبی مجلہ ساقی دہلی میں [[1944ء]] میں شائع ہو ا تو ادبی حلقوں میں اسے زبردست پذیرائی ملی ۔اس افسانے میں ممتاز شیریں نے فرائڈکے نظریہ تحلیل نفسی کو جس مو ثر انداز میں پیش نظر رکھا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔افسانہ کیا ہے عبرت کا ایک تازیانہ ہے ۔ایک لڑکی بچپن میں اپنی ہی جنس کی ایک دوسری عورت سے پیمان وفا باندھ لیتی ہے ۔ جب وہ بھر پور شباب کی منزل کو پہنچتی ہے تو اس کے مزاج اور جذبات میں جو مد و جزر پیدا ہوتا ہے وہ اسے مخالف جنس کی جانب کشش پر مجبور کر دیتا ہے۔جذبات کی یہ کروٹ اور محبت کی یہ انگڑائی نفسیاتی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل ہے ۔بچپن کی نا پختہ باتیں جوانی میں جس طرح بدل جاتی ہیں، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس ا فسانے کا اہم موضوع ہے ۔ مشہور افسانہ "انگڑائی" ممتاز شیریں کے پہلے افسانوی مجموعے "اپنی نگریا" میں شامل ہے ۔وقت کے ساتھ خیالات میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے ۔یہ تجربہ جہاں جذباتی اور نفسیاتی اضطراب کا مظہر ہے وہاں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منابع کا سراغ بھی ملتاہے ۔ وہ ایک مستعد اور فعال تخلیق کار تھیں ۔ان کے اسلوب کوعلمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
=== عالمی ادبی کانفرنس میں شرکت ===
[[1954ء]] میں [[ہالینڈ]] کے دار الحکومت [[ہیگ]] میں ایک [[بین الاقوامی]] ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ا س عالمی ادبی کانفرنس میں عالمی ادب اور انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میںوقیع مقالات پیش کیے گئے ۔ممتاز شیریں کو اس عالمی ادبی کانفرنس میں [[پاکستان]] کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔اس عالمی ادبی کانفرنس میں ممتاز شیریں نے دنیا کے نامور ادیبوں سے ملاقات کی اور عالمی ادب کے تناظر میں عصری آگہی کے موضوع پر ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ادب کو وہ زندگی کی تنقید اور درپیش صورت حال کی اصلاح کے لیے بہت اہم سمجھتی تھیں ۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
=== تنقید ===
اردو ادب میں حریت فکر کی روایت کوپروان چڑھانے میں ممتاز شیریں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔وہ عجز و انکسار اور خلوص کا پیکر تھیں ۔"ظلمت نیم روز" ہو یا "منٹو نوری نہ ناری" ہر جگہ اسلوبیاتی تنوع کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ [[قدرت اللہ شہاب]] اور محمود ہاشمی کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔[[قدرت اللہ شہاب]] کی تصنیف "یا خدا" اور محمو د ہاشمی کی تصنیف "کشمیر اداس ہے" کا پیرایۂ آغاز جس خلوص کے ساتھ ممتاز شیریں نے لکھا ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کے ارفع معیار کی دلیل ہے ۔وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت ان کے قلب ،جسم اور روح سے عبارت تھی ابتدا میں اگرچہ وہ [[کرشن چندر]] کے فن افسانہ نگاری کی مداح رہیں مگر جب کرشن چندر نے پاکستان کی آزادی اور [[تقسیم ہند]] کے موضوع پر افسانوں میں کانگریسی سوچ کی ترجمانی کی تو ممتاز شیریں نے اس انداز فکر پر نہ صرف گرفت کی بلکہ اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے کرشن چندر کے بارے میں اپنے خیالات سے رجوع کر لیااور تقسیم ہند کے واقعات اور ان کے اثرات کے بارے میں کرشن چندر کی رائے سے اختلاف کیا۔ممتاز شیریں نے اردو ادب میں منٹو اور [[عصمت چغتائی]] پر جنس کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے ان کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ممتاز شیریں کا تنقیدی مسلک کئی اعتبار سے محمد حسن عسکری کے قریب تر دکھائی دیتا ہے ۔سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز ان کا سلوک ان کی شخصیت کاامتیاز ی وصف تھا ۔ان کے اسلوب کی بے ساختگی اور بے تکلفی اپنی مثال آپ ہے ۔زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اسلوب کی ندرت کے اعجاز سے انھوں نے ادب ،فن اور زندگی کو نئے آفاق سے آشنا کیا ۔ان کے ہاں فن کار کی انا ،سلیقہ اور علم و ادب کے ساتھ قلبی لگاﺅ ، وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ وابستگی کی جو کیفیت ہے وہ انھیں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے ۔ادب کو انسانیت کے وقاراور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے کی وہ زبردست حامی تھیں ۔انھوں نے داخلی اور خارجی احساسات کو جس مہارت سے پیرایہ ءاظہار عطا کیا ہے وہ قابل غور ہے ۔اپنے ایک مضمون میں ممتازشیریں نے اپنے اسلوب اور تخلیقی محرکات کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
{{اقتباس|مجھ میں فن کار کی انا سہی لیکن اتنا انکسار تو ضرور ہے کہ یہ محسوس کر سکوں کہ بڑے ادیبوں کے سامنے ہم کتنے چھوٹے ہیں اور فن کار کے ارتقا اور تکمیل تک پہنچنے میں ہمیں ابھی کتنے اور مرحلےطے کرنے ہیں ۔میں اپنے بارے میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ پہلے درجے سے گزر کر میں نے دوسرے میں قدم رکھا ہے اور اپنی ذات میں نارسیسی انہماک پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔<ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
}}
 
=== تراجم ===
ممتاز شیریں کو انگریزی ،اردو ،عربی، فارسی اور پاکستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس حاصل تھی ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا ۔زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں ۔ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیںا ور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی سے اس کے نہاں خانہ دل میں جا گزیں تھا ۔اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولہ ءتازہ پیدا ہوتا ہے ۔ ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں ۔تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں، نئے امکانات ،نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں ۔ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو [[تنقید]] پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد دکھائی نہیں دیتی ۔ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کردیا ۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے [[تاریخ ادب]] میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لا ئق صد رشک و تحسین کا م اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔ <ref>[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
== تصانیف ==
سطر 100:
[[زمرہ:اردو تنقید نگار]]
[[زمرہ:1973ء کی وفیات]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]