"ممتاز شیریں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 39:
== ادبی خدمات ==
=== [[افسانہ نگاری]] ===
ممتاز شیریں نے [[1942ء]]میں تخلیق ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ان کا پہلا افسانہ "انگڑائی" ادبی مجلہ ساقی دہلی میں [[1944ء]] میں شائع ہو ا تو ادبی حلقوں میں اسے زبردست پذیرائی ملی ۔اس افسانے میں ممتاز شیریں نے فرائڈکے[[فرائڈ]] کے نظریہ تحلیل نفسی کو جس مو ثر انداز میں پیش نظر رکھا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔افسانہ کیا ہے عبرت کا ایک تازیانہ ہے ۔ایک لڑکی بچپن میں اپنی ہی جنس کی ایک دوسری عورت سے پیمان وفا باندھ لیتی ہے ۔ جب وہ بھر پور شباب کی منزل کو پہنچتی ہے تو اس کے مزاج اور جذبات میں جو مد و جزر پیدا ہوتا ہے وہ اسے مخالف جنس کی جانب کشش پر مجبور کر دیتا ہے۔جذبات کی یہ کروٹ اور محبت کی یہ انگڑائی نفسیاتی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل ہے ۔بچپن کی نا پختہ باتیں جوانی میں جس طرح بدل جاتی ہیں، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس ا فسانے کا اہم موضوع ہے ۔ مشہور افسانہ "انگڑائی" ممتاز شیریں کے پہلے افسانوی مجموعے "اپنی نگریا" میں شامل ہے ۔وقت کے ساتھ خیالات میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے ۔یہ تجربہ جہاں جذباتی اور نفسیاتی اضطراب کا مظہر ہے وہاں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منابع کا سراغ بھی ملتاہے ۔ وہ ایک مستعد اور فعال تخلیق کار تھیں ۔ان کے اسلوب کوعلمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔<ref name="hamariweb.com">[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
 
=== تنقید ===
سطر 48 ⟵ 47:
 
=== تراجم ===
ممتاز شیریں کو [[انگریزی زبان|انگریزی]] ، [[اردو]] ،[[عربی زبان|عربی]]، [[فارسی زبان|فارسی]] اور [[پاکستان]] کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس حاصل تھی ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا ۔زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں ۔ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیں ا ور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی سے اس کے نہاں خانہ دل میں جا گزیں تھا ۔اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولہولولۂ ءتازہتازہ پیدا ہوتا ہے ۔ ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں ۔تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں، نئے امکانات ، نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں ۔ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو [[تنقید]] پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد دکھائی نہیں دیتی ۔ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کردیا ۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے [[تاریخ ادب]] میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لا ئق صد رشک و تحسین کا م اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔ <ref name="hamariweb.com">[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=26128&type=text ممتاز شیریں:اردو کی پہلی خاتون نقاد، ابن سلطان ، ہماری ویب، پاکستان]</ref>
 
=== عالمی ادبی کانفرنس میں شرکت ===