"ویکیپیڈیا:ویکی املائی منشور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ
سطر 267:
|}
 
=== ہائے خفی ===
{|style="width:80%; " border="1" cellpadding="5" cellspacing="1" align="center"
|-
| style="width:20%" |'''ہائے خفی'''
| style="width:80%" | '''بھروسہ، بھروسا'''<br />
ہائے خفی کئی مستعار الفاظ کے آخر میں آتی ہے (غنچہ، کشتہ، درجہ، پردہ، زردہ، دیوانہ، شگفتہ، جلسہ)، دیسی لفظوں کے آخر میں الف ہوتا ہے (بھروسا، گملا، اکھاڑا، اڈّا، دھبّا، انڈا)۔ ہائے خفی حرف نہیں، ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرفِ ما قبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ "اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں اور یہ دیسی الفاظ کے آخر میں نہیں آ سکتی"۔ واقعہ یہ ہے کہ چند دیسی الفاظ میں آخری مُصوّتے (حرفِ صحیح) کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے اردو املا میں سوائے خفی ہ کے کسی اور علامت سے مدد لی ہی نہیں جا سکتی۔ جیسے روپیہ، پیسہ، نہ، پہ، البتّہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کا یہ قول صحیح ہے کہ اردو والوں نے مختفی ہ کی اصلیت کو بھُلا دیا اور ٹھیٹھ اردو لفظوں میں مختفی ہ لکھنے لگے۔ چنانچہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام دیسی لفظوں کو جو دوسرے الفاظ کی نقل میں خواہ مخواہ خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے:<br />
بھروسا اڈّا سندیسا ٹھیکا بھُوسا آرا راجا آنولا
دھوکا ڈاکیا بتاشا بٹوا بیڑا باجا بلبلا بنجارا
پانسا پٹاخا پٹارا پٹرا پھاوڑا پھیپھڑا نگوڑا توبڑا
جالا ٹھپّا ٹڈّا پھندا ہنڈولا کٹورا چبوترا چٹخارا
دھندا رجواڑا چٹکلا موگرا دسہرا ڈبیا خراٹا سانچا
سہرا کھاجا کیوڑا گھونسلا<br />
تکیہ عربی اور دربیہ فارسی لفظ ہے اور یہ ہائے مختفی سے صحیح ہیں۔ آریہ اور چاولہ دیسی الفاظ ہیں، لیکن ان کا املا ہائے خفی سے اس حد تک رائج ہو چکا ہے کہ انھیں مستثنیٰ سمجھنا چاہیے۔<br />
'''تصریفی الفاظ'''<br />
وہ تمام تصریفی شکلیں جن میں عربی، فارسی کا کوئی جز ہو لیکن اس کی تہنید ہو چکی ہو، الف سے لکھنی چاہییں:
چوراہا بال خورا چھماہا بے فکرا نو دولتا کبابیا بسترا دسپنا
سترنگا نصیبا دو رُخا خون خرابا تھکا ماندا شیخی خورا خوجا
 
البتہ ذیل کے الفاظ ہ سے مرجح ہیں:
نقشہ خاکہ بدلہ مالیدہ امام باڑہ ہرجہ خرچہ غنڈہ غبّارہ
آب خورہ یک منزلہ تولہ ماشہ زردہ سموسہ زنانہ
 
'''یورپی الفاظ'''<br />
یورپی زبانوں سے آیا ہوا جو لفظ جس طرح مستعمل ہو، اس کے رائج املا کو صحیح ماننا چاہیے، البتّہ جو لفظ رواج میں نہیں، انھیں الف سے لکھنا مناسب ہو گا:
کمرہ ڈراما فرما سوڈا
 
'''پٹنہ، آگرہ'''<br />
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس قول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "شہروں (ملکوں، جگہوں) کے ناموں کو اس طرح لکھا جانا چاہیے جس طرح وہ رائج ہیں":
آگرہ کلکتہ پٹنہ باندہ ٹانڈہ امروہہ انبالہ
ہمالہ، ہمالیہ، افریقہ، امریکہ اور مرہٹہ کو بھی ناموں کی فہرست میں شامل سمجھنا چاہیے۔
 
'''دانا، دانہ'''<br />
ذیل کے جوڑوں میں سب حروف مشترک ہیں، سوائے آخری حرف کے، یعنی پہلے لفظ میں آخری حرف الف ہے اور دوسرے میں ہائے خفی۔ یہ الگ الگ لفظ ہیں اور ان کے الگ الگ معنی ہیں۔ چنانچہ ان کے املا کا تعیّن ان کے معنی سے ہو گا:
دانا (جاننے والا، عقل مند) : دانہ (بیج، مال، دانۂ گندم)
چارا (مویشیوں کی خوراک) : چارہ (علاج، مدد)
خاصا (اضافے کے معنی میں، جیسے: اچھا خاصا) : خاصّہ (طبیعت، عادت) / خاصہ (عام کی ضد، امیروں کا کھانا)
پارا (سیماب) : پارہ (ٹکڑا، حصّہ)
لالا (لقب) : لالہ (گُلِ لالہ)
نالا (بڑی نالی) : نالہ (نالہ و فریاد)
پتّا (درخت کا پتّا) : پتہ (نشان، مقام)
نا (کلمۂ نفی) : نہ (مخّفف کلمۂ نفی)
آنا (مصدر) : آنہ (پُرانے روپے کا سولھواں حصّہ)
 
'''پردے، جلوے (مُحرّف شکلیں)'''<br />
جب ہائے خفی والے الفاظ (پردہ، عرصہ، جلوہ، قصّہ) محرّف ہوتے ہیں تو تلفّظ میں آخری آواز 'ے' ادا ہوتی ہے۔ املا میں بھی تلفّظ کی پیروی ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کی مُحرّف شکلوں میں 'ے' لکھنی چاہیے:
بندے (کا) پردے (پر) عرصے (سے) لوے (کی) مے خانے (تک)
افسانے (میں) غصّے (میں) مدرسے (سے) مرثیے (کے)
 
'''موقعہ، معہ'''<br />
مندرجہ ذیل لفظوں میں ہائے خفی کا اضافہ اب غلط ہے، ان کا صحیح املا یوں ہے:
موقع مع مصرع بابت آیت
 
'''سنہ، سِن'''<br />
سنہ بمعیس 'سال' کو اکثر بغیر ہ کے سن لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ سنہ بمعنی سال ہائے خفی سے ہے، جیسے سنہ 1857 یا سنہ ہجری یا سنہ عیسوی
سِن کے معنی 'عمر' کے ہیں۔ یہ لفظ بغیر ہ کے ہے۔
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن
 
'''جگہ، توجّہ، بہ، تہ'''<br />
ایسے الفاظ میں اگر ہائے ملفوظ یعنی جو ہائے آواز دیتی ہو، اور ہائے خفی یعنی جو ہائے آواز نہ دیتی ہو، اُن کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہو تو اس کے نیچے شوشہ لگایا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کی ضرورت نہیں، جیسے:
'بہنا' مصدر سے 'بہہ'
'سہنا' مصدر سے 'سہہ'
'کہنا' مصدر سے 'کہہ'
 
'''کہ، یہ'''<br />
کہ (کافِ بیانیہ) اور یہ میں ہ کی آواز عموماً ادا نہیں ہوتی یا بہت کمزور ادا ہوتی ہے۔ یہ کہ یہہ لکھنے پر اصرار کرنا خواہ مخواہ کا تکلّف ہے کہ اور یہ کو ہ کی لٹکن کے بغیر لکھنا ہی مناسب ہے۔
|}
 
|-