"جامعہ الباقیات الصالحات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا
(ٹیگ: القاب)
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 16:29، 29 دسمبر 2015ء

آج سے (دسمبر 2013) ڈیڑھ سو سال قبل شمش العلماء حضرت شاہ عبد الوہاب صاحب قادری رحمة اللہ علیہ نے ویلور تامل ناڈو میں "مدرسہ باقیات الصالحات" قائم کیا،[1] حضرت نے اولا پنے گھر پر ہی ہجری 1274، اور 1857 عیسوی میں اپنے ہاتھوں مدرسہ شروع فرمادیا جو بعد میں مدرسہ باقیات الصالحات کے مبارک نام سے مشہور ہوا اور شہرت و مقبولیت کی چوٹیوں کو پہنچا، الحمد للہ علی ذالک اس طرح ہندوستان میں سب سے پہلے دینی مدرسہ آغاز کرنے کا سہرا بانئ باقیات کے سر ہے۔ [2]

شمالی ہند میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی جس صدی کے مجدد دین ہیں، اسی صدی کے مجدد دین جنوبی ہند میں شمش العلماء حضرت عبد الوہاب قدس سرہ ہیں، علوم دینیہ کو سارے عالم میں روشن کرنے اسلامی معاشرہ کو عام کرنے، شمش العلماء ایک مرکزی دینی درسگاہ بنائی، یہ جنوبی ہند کا اسلامی قلعہ ہے جہاں دین و ایمان کا تحفظ ہورہا ہے جس سے علوم قرآن اور حدیث و فقہ کی ایسی نہر جاری ہوئیں ہین جن سے جنوبی ہند نے سیرابی حاصل کی، جس کی شعاعیں جنوبی ہند کی سر زمین کو مستنیر و منور کر گئیں اس کی برکت سے سارا جنوبی ہند علم وعمل ہوا ہر طرف مدارس و مکاتب کا ایک عرفانی و نورانی سلسلہ جاری ہوگیا۔ باقیات الصلحات میں ہزاروں جید علماء پیدا ہوۓ جن کی خدمتیں روز روشن کی طرح روشن ہیں۔ جس زمانہ میں یہ مدرسہ قائم ہوا ، اس وقت دینی مدارس کا عنقا تھا یہاں تک کہ مکاتب کا وجود بھی شاذ و نادر تھا، جب یہ مدرسہ قائم ہوا تو بہت کم مدت میں اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور جنوبی ریاستوں کرناٹک، آندھرا پردیش، کیرلہ، تامل ناڈ، اور جنوبی ملکوں مالدیپ، جاوا، سماٹرا، سنگا پور، ملیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا وغیرہ سے طلباء بصد شوق، جوق در جوق اس کی طرف رجوع ہوۓ اور اپنے اپنے علاقوں میں انہوں نے مکاتب و مدارس کو قائم کیا، اس ایک نورانی چراغ سے لاتعداد نورانی چراغ جلے اور جلتے رہے ہیں، اسی لئے اس مدرسہ کو "ام المدارس" کا خطاب دی گیا جو بالکل با صواب تھا۔ حضرت بانئ مدرسہ سے براہ راست مستفید ہونے والے جید علماء کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، جن میں امام المعقولات مولانا عبد الجبار صاحب ویلوری، مفتی اعظم علامہ شیخ آدم صاحب، شیخ الملت علامہ ضیاء الدین احمد امانی اور علامہ مولانا پٹ عبد الصمد صاحب قابل ذکر ہیں، ان کی ذات گرامی طلباء کی علمی تشنگی بجھانے کے لئے ہر وقت متوجہ رہتی تھی، ان لوگوں کی انتھک کوشش سے جنوبی ہند میں جامعہ منبع الانوار، لال پیٹ، مصباح الہدا، نیڈور، انوار محمدیہ، پدوکڑی، معدن العلوم وانمباڑی، جمالیہ مدراس، مدرسئہ داؤدیہ ایروڈ، مدرسہ عروسیہ کیلکری اور دارالعلوم سبیل الرشاد بینگلور جیسے مدارس قائم ہوۓ، جن سے اسلامی خدمات نظر آرہی ہیں - مدرسہ کے معلمین و مدرسین اور مدرسہ کے اراکیں و منتظمین ، حضرت بانئ مدرسہ نہج و منہج پر ہی درس و تدریس میں اور نظم و نسق میں مصروف و سرگرم عمل ہیں کوئ شور اور پرو پیگنڈہ نہیں کوئی تشہیر و اشتہار نہیں کوئی انتشار و خلفشار نہیں طلباء کرام و اساتذہ عظام اور مؤقر اراکین سب اپنے اپنے شغل و عمل میں بصد اطمینان و سکون مصروف رہے ہیں اور ہیں۔ بانئ مدرسہ حضرت شمش العلماء رح صاحب کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ ہیکہ اس مدرسہ کو اول دن سے آج تک تعلیم و تدریس کیلئے اعلی استعداد کے مخلص اساتذہ نصیب ہوۓ اور اس مدرسہ کے انتظامات کے اعلی درجہ کے مخیر اراکین میسر ہوۓ مسلسل اتنے طویل عرصہ تک اتنے سکون و اطمینان کے ساتھ اتنے بڑے مدرسہ کا چلنا اور جاری رہنا حضرت بانئ مدرسہ ہی کی کرامت ہے۔

اس مدرسہ کے فارغین حفاظ، علماء، فضلاء کے اوصاف حمیدہ میں سے ایک نمایا وصف "عجز و انکسار، سادگی و نرم خوئی" ہے، ان کے ساتھ رہنے والے اور تھوڑی دیر کیلئے ہی ان سے ملنے والے لوگ اس وصف کو ضرور محسوس کرتے ہیں، بلکہ اسکا آپس میں تذکرہ بھی کرتے ہیں، در اصل یہ وصف حضرت شاہ صاحب بانئ مدرسہ کا خاص وصف تھا، باوجود متبحر عالم اور عارف با للہ ہونے کے آپ بے نفسی و کسر نفسی کا پیکر تھے، حضرت کا یہ وصف اس مدرسہ کے فارغین کو وراثت کے طور پر ملا ہے۔ [3] جنوب ہند کے اکثر و بیشتر مدارس مدرسئہ باقیات کے فیض یافتگان کے ذریعہ وجود میں آۓ ہیں، اسی وجہ سے اس جامعہ باقیات الصالحات کو ام المدارس کہاجاتا ہے، بانئ جامعہ حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب قادری علماۓ ربانین کی اس صف میں اونچا مقام رکھتے ہیں جن کے پیش نظر صرف دین اسلام کی ترویج و اشاعت ہے ، جس کے لئے آپ نے دور اندیشی سے کام لیا آپ کی دور اندیشی ایک مثال مدرسہ باقیات صالحات کی ملکیت کو اوقاف میں داخل نہ کرانا ہے اس کی بہت سی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اس کے سبب سے حکومت کا مدرسہ اور مدر سہ کی ملکیت میں کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا ۔ آپ نے مدرسہ اور قوانین مجلس شوری مرتب فرماکر مجلس شوری کی منظوری سے حسب قانون حکومت ہند (برطانوی) کو اٹھارہ سو ساٹھ میں رجسٹری کے لئے پیش کیا، اور رجسٹر آف جائنٹ اسٹاک کمپنیز کے دفتر میں مذکور قوانین بتاریخ یکم اکتوبر اٹ چھیانوے کو رجسٹر ہوۓ، ص 429-430 آپ کو قدرت نے جن کمالات سے نوازا تھا وہ سبھی قابل ذکر ہیں مگر خاص طور پر آپ کی دور اندیشی بے مثال ہے، آپنے جامعہ باقیات الصالحات کے لئے مجلس شوری تشکیل دی اور اس وقت کی حکومت کے قانون کے مطابق دفعہ اکیس کی بابت اٹ اسی میں رجسٹر کرادیا جب کہ اس وقت کسی کو اس کا تصو بھی نہ تھا، جس سے دسیوں فتنوں کا سدباب ہوا اور مدرسہ حکومت کی دخل اندازیوں سے محفوظ ہوگیا، باقیات کو بجا طور پر "ام المدارس" ہونے کا شرف حاصل ہے، جنوبی ہند کے کسی بھی شہر یا گاؤں میں کوئی بھی مدرسہ یا مکتب چل رہاہو آپ دیکھیں گے وہ بالواسطہ یا بالا واسطہ باقیات الصالحات ہی کے فضلاء کا قائم کیا ہوا ہوگا، الحمد للہ علی ذالک۔

باقیات سے متعلق ایک اجمالی خاکہ: ولادت: بانئ مدرسہ اعلی حضرت یکم ربیع الاول 1226 ہجری، وفات: بائیس ربیع الثانی 1337 ہجری مطابق 25 جنوری 1919 کو ہوئی، آغاز باقیات حضرت کے مکان میں ہجری 1274، مطابق 1857 عیسوی کو ہوا، آغاز باقیات مسجد کے صحن میں 1286 ہجری، مطابق 1869 عیسوی کو ہوا، قدیم تعمیر مدر سہ: ہجری 1304، مطابق 1887 عیسوی میں ہوئی، جشن سوسالہ 1394 ہجری مطابق 1974 عیسوی میں منایا گیا جشن ڈیڑھ سو سالہ دسمبر 2013 میں منایا گیا۔

  1. مجلہ الباقیات دسمبر 2013
  2. www.baqiyath.com
  3. مجلہ الباقیات دسمبر 2013 ص 183-184