"خپلو" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 115:
}}
 
وادی '''خپلو''' [[گلگت بلتستان]] کے چھے اضلاع میں سے [[ضلع گانچھے]] کا صدر مقام ہے۔پورے [[ضلع گانچھے]] کو [[بلتستان]] کے دیگر علاقوں کے لوگ خپلو بھی کہتے ہیں۔جو کہ وادی سکردو سے 103 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ قدیم [[بلتستان]] میں [[یبگو]] سلطنت کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔یہاں کے لوگ [[بلتی زبان]] بولتے ہیں۔خپلو قدیم ادوار سے لداخ کو بلتستان و دیگر علاقوں سے جوڑتا آیا ہے۔یہیں سے سیاچین کو راستے جاہیں جسکی وجہ سے اسکی دفاعی اہمیت مسلمہ ہے نیز اسی علاقے میں مشابرم جسی ببلند پہاڑیاں واقع ہیں۔خپلو کو لوگ وادی شیوک کے نام سے بھی جانتے ہیں یہ دریا کا نام ہے جو کہ اس کے ذیلی وادی چھوربٹ سے بہتا ہوا تقریبا پوری دوادی سے گزر کر کھرمنگ کے مقام پر دریائے سندھ میں جاگرتا ہے۔
== تاریخ ==
 
اگر بلتستان کو ایک پوشیدہ ملک کہیں تو اس کا زیادہ اطلاق خپلو پر ہوگا۔اس چھوٹی سی بلتی سلطنت کا ذکر سب سے پہلے مرزا حیدر (1499–1551) کی مشہور کتاب تاریخ راشدی میں خپالو کے نام سے ہوا۔مصنف نے خپلو کو بلتی کا ایک اضلاع قرار دیا ہے۔لیکن 17 ویں اور 18ویں صدی میں باہر کے لوگوں کی اس علاقے سے کافی شناسائی ہونے لگی جسکی وجہ اس علاقے کا لداخ سے جغرافیائی اور راجوں کے خاندانی رشتہ داری اور تعلقات تھے۔یہاں کے راجے اکثر اوقات سکردو کے راجوں کے ماتحت ہی رہے اور یہ راجے ایک خاص مقدار میں ٹیکس بھی ادا کرتے تھے۔ان راجگان کے دور میں اس خطے کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی غربت کی بھٹی میں پستا رہا عام لوگ راجوں کو اپنے زراعت اور مال مویشیوں میں سے خاص قسم کا ٹیکس دینے کے پابند تھے نیز راجہ صاحب اپنی مرضی کے مطابق جس زمین کو چاہیں لوگوں سے ہتھیا سکتے تھے۔راجگان کا یہ دور قیام پاکستان کے بعد زولفقار علی بھٹو کے دور میں کہیں جاکے ختم ہوا اب بھی یہاں کے لوگ ان سے اسی حوالے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
کیپٹن کلاڈی مارٹن واڈے (1794–1861) شاید پہلے یورپی تھے جو اس مقام پر پہنچے جنھوں نے 1835 میں چھپنے والے ایک انگریزی مضمون ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں اسے چلو کے نام سے پکارا ہے۔جبکہ مارکروفٹ ٹریبک نامی خاتون مصنف نے 1841 میں چھپنے والی اپنی کتاب میں لکھا ہے " کفالون ایک صوبہ ہے جو نوبرا میں شیوک کے کنارے واقع ہے"۔الیگزینڈر چیننگم نے 1854 میں اس علاقے کا ایک تفصیلی نقشہ اور اس علاقے کے راجاوں کا شجرہ نصب بیان کیا ہے۔ایک اور انگریز سیاح تھامس تھومسن نے نومبر 1847 میں لکھا کہ تبت کا ناقابل بیان خوبصورت علاقہ۔نائٹ اپنے سفر میں بیان کرتے ہیں کہ خپلو بلتستان کا سب سے بڑا مالدار علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے جنت کے باغیچوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔جین ای ڈنکن اس علاقے میں 1904 میں پہنچی وہ یہاں تین ہفتے رہیں نیز لکھتی ہیں کہ یہ غالبا اس خطے کا سب سے پیارا نخلستان ہے۔
== سیاحت ==
یہ علاقہ سیاحوں کے لئے ایک پر کشش مقام ہے اور ہر سال سینکڑوں پاکستانی و یورپی سیاح یہاں کا چکر لگاتے ہیں۔ یہ مقام قراقرم کے بلند پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے جہاں سے دنیا کی 21 ویں بلند ترین پہاڑی مشابرم نہایت نزدیک پڑتی ہے نیز یہاں کا علاقہ ہوشے مارخور کے شکار کے لئے انگریز دور ہی سے مشہور ہے۔نیز یہاں کی تعمیرات بھی قابل دید ہیں جیسے چقچن مسجد جو کہ خطے کی اولین مساجد میں سے ایک ہے جسکی تعمیر 13 ویں صدی میں ہوئی۔دو سو سال پرنا خپلو قلعہ بھی تبتی اور ایرانی فن تعمیر کا نظارہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خپلو برق، خانقاہ معلیٰ خپلو کی عمارت اور مسجد تھقسی کھر بھی قابل ذکر مقامات میں سے ایک ہیں۔
{{wide image|Khaplu panaramo.jpg|2000px|دریائے شیوک سے خپلو کا منظر.}}
 
 
 
[[زمرہ:ضلع گانچھے]]