"ضلع ارریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ
معمولی
سطر 60:
}}
<ref>{{cite web |author =انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین |url =https://en.wikipedia.org/w/index.php?title=Araria&redirect=no&oldid=650467672 |title =Araria|date = }}</ref>
 
ارریہ ضلع بھارت کی ریاست  بہار کے اڑتیس 38 ضلعوں میں سے ایک ضلع ہے اور ارریہ شہر اس ایڈ منسٹریٹیو ہیڈ کواٹر ہے اور یہ پورنیہ ڈیویزن کا ایک حصہ ہے
 
<nowiki>[[ارریہ ضلع|ارریہ]]</nowiki><ref>http://www.araria.wordpress.com</ref>
 
ارریہ ضلع بہار کے ۳۸ ضلعوں میں سے ایک مشہور <nowiki>[[ضلع]]</nowiki> اور <nowiki>[[شہر]]</nowiki> ہے جو سیمانچل علاقہ کے چار ضلعوں <nowiki>[[پورنیہ]]</nowiki> <nowiki>[[ارریہ]]</nowiki> <nowiki>[[کٹیہار]]</nowiki> اور <nowiki>[[کشن گنج]]</nowiki>میں سے ایک ہے اور یہ بھارتی  ضلع ایک <nowiki>[[سرحدی]]</nowiki>  ضلع بھی ہے جوکہ مشرق شمال میں نیپال سے منسلک ہے. ارریہ کی مجموعی آبادی 60,594 افراد پر مشتمل ہے اور 47 میٹر سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔ اور [[ارریہ شہر]] اس ضلع کا انتظامی ہیڈکوارٹر ہے. ارریہ ضلع پورنیہ ڈیویژن کا ایک حصہ ہے. ضلع کا پھیلاؤ 2830 کلومیٹر ہے. یہ پہاڑ کنگچینجنگا (ہمالیہ سیریز کے عظیم چوٹیوں میں) کا ایک نقطہ نظر ہے.
 
آج سے تقریباً 400 سال پہلے سر زمین ارریہ پور نیہ صوبہ کا ایک حصہ تھی اور یہ مغل حکمراں کی ماتحتی میں تھا ، حاکم سیف خان (1731ء-1748ء) نے اپنی ماتحت علاقہ کا پھیلاؤ کیا اور سلطانپور یعنی موجودہ فاربس گنج کو اپنے صوبہ میں ملا لیا ، اس وقت پورنیہ بنگال کے تین صوبوں میں سے ایک تھا، سیف خان نے بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر پورنیہ اور سلطان پور کے بیچ ایک قلعہ بنوایا جسے جلال گڑھ کا نام دیا گیا جو آج بھی اسی نام سے مشہور ہے، سیف خان نے مسلم ہنر مندوں، تاجروں، اور بہادروں کو اپنے صوبے میں بسنے کی ترجیح دی، ان میں سے دو بہت اہم تھے، محمد رضا لگھڑا کشن گنج کے نواب اور امیر تک میر یا برواہا (سلطان پور )کے میر صاحب، میر صاحب نے برواہا کے آس پاس کے پندرہ گاؤں کو خریدلیا،
ارریہ اضافہ
 
آج سے تقریباً 400 سال پہلے سر زمین ارریہ پور نیہ صوبہ کا ایک حصہ تھی اور یہ مغل حکمراں کی ماتحتی میں تھا ، حاکم سیف خان (1731ء-1748ء) نے اپنی ماتحت علاقہ کا پھیلاؤ کیا اور سلطانپور یعنی موجودہ فاربس گنج کو اپنے صوبہ میں ملا لیا ، اس وقت پورنیہ بنگال کے تین صوبوں میں سے ایک تھا، سیف خان نے بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر پورنیہ اور سلطان پور کے بیچ ایک قلعہ بنوایا جسے جلال گڑھ کا نام دیا گیا جو آج بھی اسی نام سے مشہور ہے، سیف خان نے مسلم ہنر مندوں، تاجروں، اور بہادروں کو اپنے صوبے میں بسنے کی ترجیح دی، ان میں سے دو بہت اہم تھے، محمد رضا لگھڑا کشن گنج کے نواب اور امیر تک میر یا برواہا (سلطان پور )کے میر صاحب، میر صاحب نے برواہا کے آس پاس کے پندرہ گاؤں کو خریدلیا،
 
پلاسی کی لڑائی 1757ء اور اس میں سراج الدولہ کی ہار نے پورے حکومتی ماحول کو بدل دیا۔
 
1765ء کی الہ باد کی سندھی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی برتاؤ کے طور پر بنگال کی مالک بن گئی، اس کے فورافوراً بعد سخت حکومت کے لئے بنگال کے صوبوں کو ضلع کہا جانے لگا، اور پورنیہ صوبہ بنگال کا ایک ضلع بنا،  جس کی سرحد دارجلنگ سے گنگا ندی تک جاتی تھی۔
 
بدلی ہوئی حالت میں سلطان پور ایک زمیندارانہ حصہ بن گیا، جس کے آدھے حصہ پر میر صاحب کا حق تھا اور آدھے پر رانی اندرا وتی کا جو اندر نارائن راۓ کی اہلیہ تھیں، اس رانی کا میکہ رانی گنج کے پاس کے گاؤں ہنس کولہ تھا اور آج کا رانی گنج رانی اندرا وتی کے نام پر ہی جانا جاتا ہےہے۔ جو
 
راجہ اندر نارائن کی زمینداری اٹہارہ پچاس1850ء میں مرشدابآد کے پرتاپ سنگھ کو بیچ دی گئی، پرتاب سنگھ کے لئے اتنے دور سے اس علاقہ نگرانی کرنا مشکل ہورہا تھا اس لئے انہوں نے اٹارہ انسٹھ1859ء میں سلطانپور کی زمینداری ایک انگریز مسٹر [[الیک زینڈر فاربس]] کو بیچ دی، اسی کے ساتھ ترقی کے ایک نۓ زمانہ کی شروعات ہوئی۔  
 
دوسری طرف  اٹھارہ ساٹھ  آس1860ء پاسمیں میر صاحب کا انتقال ہوگیا ان کا کوئی وارث نہیں تھا،  نتیجتانتیجتاً دھیرے دھیرے ان کی بھی زمینداری الیک زینڈر فاربس کی زمینداری میں شامل ہو گئی یا کر دی گئی،  الیک زینڈر فاربس نے پورے پرغنے میں نیل کی کھیتی کروائی جب یوروپ میں کیمیائی طور پر نیل بننے لگا تو نیل کی کھیتی بند کروا دی گئی 1890ء میں الیک زینڈر فاربس اور اس کی بیوی ڈائینا کی ملیریا کے سبب موت ہوگئی، اس کے انتقال تک سلطان پور کی زمینداری پورنیہ ضلع کی سب سے بڑی زمینداری بن گئی تھی۔ 
 
آرتھر ہینری فاربس نے والد کے فوت ہوجانے کے بعد حکومت سنبھالی اسی کے وقت میں سلطان پور کا نام بدل کر فاربس گنج رکھا گیا یہ ظالم قسم کا انسان تھا اسی نے ڈگڈگی پٹوائی کہ سلطان پور کا کوئی بھی باشندہ اپنے رہنے کے لئے پکا مکان نہیں بناۓ گا،  
 
اس ونشخاندان کا آخری وارث مسٹر مکائی تھا،  1947ء کے بعد یہ خاندان انگلینڈ چلا گیا،  اور آزادی کے بعد سے سنہ 1990ء تک موجودموجودہ ارریہ ضلع [[پورنیہ ضلع]] کا حصہ بنا رہا،  14 جنوری 1990ء کو یہ ایک نئے ضلع کے طور پر رونما ہوا تب سے یہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہےہے۔ <ref group="bih.in.in">bih.inc.in</ref> 
 
سن 1864ء میں ارریہ برگاچھی کے قریب گرائنی کوٹھی میں ارریہ سب ڈویژن قائم کیا گیا تھا۔تھا، <ref>jagran.com 17nov. 2013</ref> 
 
سیلاب کی وجہ سے سن 1875ء سب ڈویژن کچہری کو موجودہ مقام پر منتقل کر دیا گیا لیکن جس مقام سے حکومت نے اپنی شروعات کی تھی آج وہ جگہ اجاڑ اور نظر انداز کی ہوئی ہے،  ماضی کے کئی حاکموں نے یہاں نہ مٹنے والی نشانیاں چھوڑی ہیں۔  
 
jagran.com 17 nov.  2013
 
دوسری طرف  اٹھارہ ساٹھ  آس پاس میر صاحب کا انتقال ہوگیا ان کا کوئی وارث نہیں تھا،  نتیجتا دھیرے دھیرے ان کی بھی زمینداری الیک زینڈر فاربس کی زمینداری میں شامل ہو گئی یا کر دی گئی،  الیک زینڈر فاربس نے پورے پرغنے میں نیل کی کھیتی کروائی جب یوروپ میں کیمیائی طور پر نیل بننے لگا تو نیل کی کھیتی بند کروا دی گئی 1890ء میں الیک زینڈر فاربس اور اس کی بیوی ڈائینا کی ملیریا کے سبب موت ہوگئی، اس کے انتقال تک سلطان پور کی زمینداری پورنیہ ضلع کی سب سے بڑی زمینداری بن گئی تھی۔