"مسدس حالی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4:
مولانا نے ”مسدس“ میں اپنی قوم کو اس کے عروج و زوال کے افسانے ایسے دلکش انداز اور دلنشین پیرائے میں سنائے کہ قوم تڑپ اٹھی اور اپنی ناکامی و نامرادی کے اسباب اور وجوہات کی کھوج میں لگ گئی۔ مسدس حالی مسلمانوں کی بالخصوص اور ہندوستان کی بالعموم اس وقت کے فکری اور تاریخی غداری کی داستان ہے۔ جس میں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کے ساتھ غداری کرکے اپنے لئے اپنے مسخ شدہ ضمیر کا دوزخ خریدا۔آئیے نظم کا فکری جائزہ لیتے ہیں،
 
==حالی کا تاریخی مطالعہ==
 
”مسدس حالی“ ایک ایسی نظم ہے جس میں مسلمانوں کے ماضی کے تاریخی واقعات کی جھلکیوں کا عکس ملتا ہے۔ اس نظم میں مولانا حالی نے نہ صرف قوم کی سابقہ عظمت اور شان و شوکت پربحث کرتے ہوئے موجودہ دور میں ان کی غیرت کو للکار ہے۔ بلکہ اس کو تاریخی واقعات کے ساتھ بیان کرکے ان کی عہد بہ عہد ترقی تنزل کے اسباب اور وجوہات کو بھی بیان کیا ہے۔ جس سے مولانا حالی کے تاریخ اسلام کے گہرے مطالعے اور آگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے عہد بہ عہد تاریخی واقعات کو نمونے کے طور پر نظم کا روپ دے کر مسلمان قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ مثال کے طور پر شروع کے اشعار میں عرب کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ ایسا سچا ہے کہ جب سے قلم نے اس منظر کو قلمبند کیا اس وقت سے آج تک وہ اس عہد کے ہر نقشہ کھینچنے والے کے لئے نمونے کا کام دیتا ہے۔
سطر 20:
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
 
==مغربی اقوام کی اصلیت==
 
اس طرح مغربی اقوام کی تہذیب و تمدن اور انسانی ہمدردی کے چہر ے کو بے نقاب کرتے ہیں تو ان اقوام کا اصلی روپ سامنے آ جاتا ہے۔ جس کا مظاہرہ انہوں نے دور حالی میں بھی مسلمان قوم کے ساتھ بالخصوص اور دیگر اقوام کے ساتھ بالعموم کیا اور آج بھی یہی بظاہر ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے جس طرح انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور انسانی گوشت اور ہڈیوں کو نوچتی ہیں اُن کے چہرے کو بڑے واضح طور پر بے نقاب کیا ہے۔
سطر 33:
ہمارے اسلاف نے حالی کی طرح تاریخی واقعات کی روشنی میں ان اقوام کی حقیقی چہرے کا پردہ فاش کر دیا تھا۔ لیکن مسلمان آج بھی ان کے چبائے ہوئے نوالوں کی امید میں دست نگر بنی بیٹھی ہے۔ ان کی تہذیب و تمدن مسلمانوں کے لئے وبال ہے۔ اگرچہ انہوں نے مسلمانوں ہی کے ورثے کو بروئے کار لاتے ہوئے آج ترقی کے تمام زینے طے کر لئے ہیں۔
 
==اسلام کا شاندار ماضی==
 
اس طویل نظم میں مولانا حالی نے مسلمانوں کو شاندار ماضی کی تاریخ کواور ماضی کے کارہائے نمایاں کو بیان کرکے مسلمان قوم کو غیرت دلانے کی سعی کی ہے۔ خلافت اندلس کے حوالے سے مسلمان قوم کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور خلافت اندلس کی جھلک ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
سطر 54:
مسلمانوں نے دنیا کو اصولِ تجارت سے آشنا کیا۔ سیر و سیاحت کو فروغ دیا ۔ نئے نئے ممالک دریافت کئے۔ انھوں نے دنیا والوں کو ریاضی ، فلسفہ ، طب ، کیمیا، ہندسہ ، ہیئت ، سیاحت ، تجارت ، معماری ، نقاشی ، اور جراحی جیسے علوم علوم و فنون سے آگا ہ گیا۔ اور واقعتا مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدا ر کرنے ان کا جمود توڑنے اور انہیں سعی و کوشش کی جانب مائل کرنے میں اس نظم کا بہت بڑا حصہ ہے۔
 
==قوم کی غفلت==
 
مسد س میں حالی نے قوم کی ترقی و عروج کو نہایت موثر انداز میں بیان کرنے کے بعد اس بات کو بڑے دکھ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہ مسلمانوں نے تنزل پر قناعت کر لی ہے اور غفلت و ست کوشی کے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ۔ اس طرح وہ خود تو ذلیل ہوئے ہی ہیں لیکن انہوں نے اپنی بے حسی کی وجہ سے ہادی برحق کے دین کو بھی بدنام کیا ہے۔ فرماتے ہیں،
سطر 65:
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
 
==عشق رسول==
 
حالی نے زمانہ جاہلیت میں عربوں کی بے مروّتی ، ذرا ذرا سی بات پر سالہا سال تک ایک دوسرے کا خون بہانا، غلاموں اور عورتوں پر غیر انسانی ظلم و ستم اور بداخلاقی و بت پرستی کی حالت کو نہایت مو ثر انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد اس دور کا ذکر ہے جب آفتاب ِ اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور اس کی نورانی کرنوں نے جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے روئے اسلام کو پاک کیا۔ اس دور کا ذکر حالی نے بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ جناب رسالت مآب کی شان میں جو چند بند حالی نے کہے ہیں ان میں عشق نبی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جہاں کہیں اس موضوع پر لکھا ہے قلم توڑ دیاہے۔
سطر 83:
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
 
==مسلمانوں کی مذہب سے روگردانی==
 
مسلمان کا جاہ و جلال اور عزت و حرمت اسلامی تعلیمات پر عمل پیراءہونے کی وجہ سے تھی لیکن مسلمانوں نے مذہب سے روگردانی اختیار کی اور عیش و عشرت میں پڑ کر اپنے فرائض سے چشم پوشی کرنے لگے تو ان کی تمام شان و شوکت اور عظمت و برتری خاک میں مل گئی اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ وہ محض نام کے مسلمان رہ گئے
سطر 94:
اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی
 
==گمراہی سے بچنے کی تلقین==
 
مسدس حالی میں جہاں پر قومی زبوں حالی کے اور اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہاں پر اسلام کے بنیادی اصولوں سے روگردانی ، بے راہ روی اور گمراہی سے بچنے کی بھی تلقین نظر آتی ہے۔ مولانا نے مسلمان قوم پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون اور ضابطہ حیات پر عمل کرتے ہوئے سرخرو ہو سکتے ہیں ۔وہ مسلمانوں کو توحید کا دامن تھامے رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ان سے نہ صرف ایمان و یقین میں پختگی آتی ہے بلکہ جعلی پیروں ، درویشوں سے آزاد ہو کر انسان بغیر کسی سہارے کے ذات واحد سے ہم کلام ہو جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف وہ بہت سی معاشرتی اور سماجی برائیوں اور فضولیات سے بچ جاتا ہے بلکہ اسلام کے بتائے ہوئے رہنما اصولوں کی روشنی میں اپنا حال و مستقبل درست کر سکتا ہے۔ بلکہ دونوں جہانوں میں کامیابی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ مولانا تمام خرابیوں کی جڑ مذہب کے بنیادی اصولوں سے ناو اقفیت کو قرار دیتے ہیں اور اس کا حل تو حید پر عمل پیرا ہونے میں نکالتے ہیں۔
سطر 105:
جھکائو تو سر اس کے آگے جھکاو
 
==خواب غفلت سے بیداری کی تلقین==
 
مسدس حالی میں مسلمان قوم کو غفلت سے بیدار کرنے اور غفلت میں پڑی ہوئی اس قوم کی حالت کا بڑا ہی درد انگیز نقشہ پیش کیا ہے۔ کہ مسلمان قوم خرگوش کی نیند سو رہی ہے۔ جبکہ اہل ِ یورپ اُن کی اس غفلت کا پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کو اپنی موجودہ پستی کا احسا س ہو۔ حالی مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ایسی غفلت کی حالت میں کسی کو بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
سطر 126:
جلی کھیتیاں تو نے سرسبز کی ہیں
 
==مجموعی جائزہ==
مولانا حالی نے اس نظم میں انسانیت کے نام جو خود اعتمادی ، مستقل مزاجی اور اپنی مدد آپ کے تحت زندگی میں کامےابی ملک و قوم ، معاشرہ اور سوسائٹی کے لئے بہتری اور خوشحالی کے جو فکری پہلو اور راہنما اصول بتائے وہ بے مثال ہی نہیں بے نظیر بھی ہیں ۔ دنیا کی شاید ہی کسی شاعری یا صنف سخن نے کسی ملک و قوم کے لئے ایسا لافانی فلسفہ حیات پیش کیا ہو۔ مولانا حالی کی اس نظم نے مسلمانوں میں انقلاب کا عزم بپا کر دیا۔ مسلمان قوم کو بیدار کر دیا۔اسی انقلاب اور بیداری کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار ریاست دیکھی جا سکتی ہے۔
بقول انور سدید
{{اقتباس|حالی کیمسدسکی مسدس اردو کی مقصدی شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طویل نظم میں حالی نے قوم کی دکھتی ہوئی رگ کو ایک ماہر نباض کی طرح پکڑا ہے۔ اور موثر انداز میں شعر کا روپ دے دیا ہے۔“ہے۔}}
بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی،
{{اقتباس|یہ نظم دکھے ہوئے دل کی پکار ہے۔ ایک سچے مسلمان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز ہے۔ ایک مخلص انسان کی آنکھوں سے ٹپکا ہوا آنسو ہے۔ ایک مصلح کا پیام ہے ایک رہنما کا نعرہ ہے۔“ہے۔}}