"دعوت ذو العشیرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
فوجدار (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1:
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طور پر جاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو
▲اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے
اس روایت سے معلوم
▲کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
ایک اور روایت میں
▲دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر چیز لایا هو، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور اللہ نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور (اہل تشیع کتب کے مطابق) فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، ابوطالب (ع) سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے : ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم
▲اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔
اہل سنت کی کتب میں اس واقعہ کا
▲ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
▲اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے : ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا
▲اہل سنت کی کتب میں اس واقعہ کا تزکرہ موجود ہے تاہم حضرت علی {{رض}} کے متعلق رسول اللہ {{درود}} کے اس ارشاد کہ "یہ تمہارے درمیان میرا وصی اور میرا جانشین ھے " کے متعلق کوئی روائت نہیں ملتی۔
|