"دعوت ذو العشیرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
'''== '''دعوت ذوالعشيرة''' =='''
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طور پر جاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔
 
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے۔ہوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هواہوا ۔
 
تاریخاس اسلامدعوت اور تبلیغ کی رواجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ہے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثتنے کےاپنے تیسرےقریبی سالرشتہ اسداروں دعوتکو کاجناب حکمابوطالب هواکے کیونکہگھر اب تک آپ کیمیں دعوت مخفی طورپرجاری تھی اوردی اس مدت میں بہتتقریباً کمچالیس لوگوںافراد نےشریک اسلامہوئے قبولآپ کیاکے تھاچچاؤں لیکنمیں جبسے یہ[[ابوطالب]]، آیت[[حمزہ]] نازلاور هوئی[[ابولہب]] نے وانذربھی عشیرتکشرکت الا قربین “۔کی ۔
 
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھبابولہب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیاہوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔
 
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلبعبدالمطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیںنہیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر چیز لایا هو،ہو، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوںہوں اور اللہ نے مجھے حکم دیا ھےہے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں، تم میں سے کون ھےہے جو اس کام میں میرا ھاتھہاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ہو“ ؟ سب لوگ خاموش رھےرہے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگاریار و مددگار هوںہوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ھاتھہاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور (اہل تشیع کتب کے مطابق) فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ھےہے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئےہوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، ابوطالب (ع) سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔
اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ھے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں دعوت دی اس میں تقریباً چالیس افراد شریک هوئے آپ کے چچاؤں میں سے [[ابوطالب]]، [[حمزہ]] اور [[ابولھب]] نے بھی شرکت کی ۔
 
اس روایت سے معلوم هوتاہوتا ھےہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنھاتنہا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیزتمسخر آمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنھاتنہا تھے کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھےرہے تھے۔
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
 
ایک اور روایت میں ھےہے کہ پیغمبراکرمپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت قریش کے ھرہر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنییا بنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر چیز لایا هو، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور اللہ نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور (اہل تشیع کتب کے مطابق) فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، ابوطالب (ع) سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔
 
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے : ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم خودھیخود ھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیںنہیں کر کرسکوںسکوں گا
اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔
 
اہل سنت کی کتب میں اس واقعہ کا تزکرہتذکرہ موجود ہے تاہم حضرت علی {{رض}} کے متعلق رسول اللہ {{درود}} کے اس ارشاد کہ "یہ تمہارے درمیان میرا وصی اور میرا جانشین ھےہے " کے متعلق کوئی روائتروایت نہیں ملتی۔
ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
 
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے : ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا
 
اہل سنت کی کتب میں اس واقعہ کا تزکرہ موجود ہے تاہم حضرت علی {{رض}} کے متعلق رسول اللہ {{درود}} کے اس ارشاد کہ "یہ تمہارے درمیان میرا وصی اور میرا جانشین ھے " کے متعلق کوئی روائت نہیں ملتی۔