"میدان تیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:اسلام
اضافہ سانچہ/سانچہ جات
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
'''میدان تیہ''' ایک تاریخی میدان کا نام ہے۔
=== لفظ تیہ کی تحقیق ===
تاہ یتیہ تیھا (ضرب) وتیھانا مصدر ۔ سرگرداں گھومتے رہیں گے۔ تیۃ لق و دق بیابان۔ وہ بیابان جس میں مسافر گم ہو جائے<ref>انوار البیان، محمد علی،المائدہ26</ref>
تیہ کا لغوی معنی ہے حیرت‘ وہ میدان چھ فرسخ کا تھا‘ یعنی اٹھارہ شرعی میل اور ستائیس انگریزی میل کا۔ وہ دن رات چلتے رہتے تھے‘ لیکن اس میدان کو قطع نہیں کر پاتے تھے‘ وہ صبح کو جہاں سے چلنا شروع کرتے‘ شام کو پھر وہیں پہنچ جاتے تھے اور شام کو جہاں سے چلتے تھے‘ صبح وہیں پہنچ جاتے تھے۔ <ref>تفسیر تبیان القرآن ،مولانا غلام رسول سعیدی صاحب،المائدہ،26</ref>
سطر 19:
| 26
}}
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ چھ لاکھ بنی اسرائیلی لوگ ایک میدان میں چالیس برس تک بھٹکتے رہے مگر اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ اسی میدان کا نام ‘ میدان تیہ ‘ ہے۔ اس میدان میں بنی اسرائیل کے کھانے کیلئے من و سلویٰ نازل ہوا اور پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے بار بار مختلف عنوانوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس میں سے [[المائدہ|سورہ مائدہ]] میں یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے جو بلاشبہ ایک عجیب الشان واقعہ ہے جو بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور شرارتوں کی تعجب خیز اور حیرت انگیز داستان ہے مگر اس کے باوجود بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت و شفقت بنی اسرائیل پر ہمیشہ رہی کہ جب یہ لوگ میدان تیہ میں بھوکے پیاسے ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگ کر ان لوگوں کے کھانے کیلئے من و سلویٰ نازل کرایا اور پتھر پر عصا مار کر بارہ چشمے جاری کرا دیے.
علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں :
بنواسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ جبارین کے شہر میں داخل ہوں اور ان کے خلاف جہاد کریں‘ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : آپ اور آپ کا رب ان سے جنگ کریں‘ ہم یہیں بیٹھے رہیں گے‘ ان کی اس گستاخی کی سزا کے طور پر ان کو میدان تیہ میں چالیس سال تک سرگرداں رکھا گیا‘ میدان تیہ مصر اور شام کے درمیان پانچ چھ فرسخ (ایک فرسخ تین شرعی میل کا ہوتا ہے) کا ایک وسیع وعریض میدان ہے۔ اس کی تفصیل اور پس منظر اس طرح ہے :
بنی اسرائیل کا اصل وطن ملک شام تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں یہ لوگ مصر آکر مقیم ہوئے۔ فرعون مصر کی غلامی کا دور بھی ان لوگوں نے مصر میں گزارا‘ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے انہیں نجات عطا فرمائی‘ فرعون سمندر میں غرق ہوا اور بنی اسرائیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس دوران ملک شام پر قوم عمالقہ قابض ہوچکی تھی‘ فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ عمالقہ سے جہاد کرکے ان سے اپنا وطن آزاد کرائیں۔ بنی اسرائیل جہاد کے لیے ملک شام کی طرف روانہ ہوئے‘ جب یہ عمالقہ کی حدود کے قریب پہنچے تو ان کی قوت اور طاقت کا حال سن کر ہمت ہار بیٹھے اور جہاد سے منہ موڑ کر واپس لوٹے‘ اللہ تعالیٰ نے انکے اس جرم کی سزا یوں دی کہ وہ اپنے گھروں تک جانے کی فکر میں دن بھر سفر کرتے‘ رات بسر کرنے کے بعد صبح کو اپنے آپ کو وہیں پاتے جہاں سے گزشتہ صبح انہوں نے سفر کا آغاز کیا ہوتا‘ اسی پریشان حالی کے عالم میں چالیس سال انہوں نے میدان تیہ میں گزار دیے۔ اس وادی میں نہ کوئی سایا دار درخت تھا اور نہ ہی کوئی عمارت‘ نہ پینے کے لیے پانی نہ کھانے کے لیے کوئی چیز‘ نہ ضروریات زندگی کے دیگر لوازمات‘ اس بے سروسامانی کے عالم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کے لیے سب سامان مہیا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے دھوپ سے بچاؤ اور سایا کے حصول کے لیے بادل بطور سائبان نازل فرما دیا‘ کھانے کے لیے کوئی چیز‘ نہ ضروریات زندگی کے دیگر لوازمات‘ اس بے سروسامانی کے عالم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کے لیے سب سامان مہیا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے دھوپ سے بچاؤ اور سایا کے حصول کے لیے باد بطور سائبان نازل فرما دیا‘ کھانے کے لیے من وسلوی بھیج دیا‘ من وسلوی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں‘ صحیح قول یہی ہے کہ من سے مراد ترنجبین ہے جو ایک نفیس شیریں ذائقہ دار مادہ تھا جو شبنم کی طرح صبح کے وقت آسمان سے اترتا اور کثیر مقدار میں چھوٹے چھوٹے درختوں پر منجمد ہوجاتا تھا۔<ref>تفسیر تبیان القرآن ،مولانا غلام رسول سعیدی صاحب،البقرہ،55</ref>
امام ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ان کے کپڑے میدان تیہ میں نہ پرانے ہوتے تھے اور نہ پھٹتے تھے۔
ابن منذر نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ بنو اسرائیل جب اپنے تیہ کے میدان میں تھے تو ان کے کپڑے اس طرح بڑھتے تھے جس طرح وہ جوان ہوتے<ref>تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی،المائدہ،26</ref>
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:مسیحی اصطلاحات]]
[[زمرہ:یہودی۔مسیحی موضوعات]]