"تصلیب مسیح" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Dawoodmajoka نے صفحہ تصلیب عیسی کو بجانب تصلیب عیسیٰ منتقل کیا: املاء
سطر 10:
جمعہ کے روز دن چڑھ آنے پر مسیح کو پہلے کوڑوں کی سزا دی گئی اور پھر مروجہ طریق کے مطابق انہیں اپنی صلیب خود ہی اٹھا کر شہر کی فصیل سے باہر مقرر مقام تک لے جانا پڑی<ref>مرقس کی انجیل، باب ۱۵، آیت ۲۱</ref>۔ اس راستہ کو گلابوں کا راستہ کہا جاتا ہے اور بعض عیسائی حضرت مسیح کی یاد میں آج بھی اس راستہ پر صلیب اٹھا کر چلتے ہیں۔ گولگوتھا کے مقام پر پہنچ کر صبح تیسرے پہر (قریباً ۹ بجے) مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا گیا<ref>مرقس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۲۵</ref>۔ اس کے لئے ان کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں میں لوہے کے کیل ٹھونکے گئے جس کے بعد ان کے دونوں پائوں بھی ایک ہی کیل کے ذریعہ صلیب سے ٹھونک دیے گئے۔ مصلوب کو اس طرح کئی کئی دن صلیب پر لٹکنا پڑتا تھا اور رفتہ رفتہ کمزوری اور خون بہنے کے باعث سسکتے رہتے تھے۔
 
یہودی عقیدہ کی روشنی میں یہ ضروری تھا کہ سبت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے مصلوب شخص کو صلیب سے اتار لیا جائے۔ ادھر چھٹے پہر کسی سورج گرہن یا آندھی کی وجہ سے انڈھیرااندھیرا چھا گیا<ref>مرقس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۳۳</ref>۔ چنانچہ نویں پہر (قریباً ۳ بجے بعد دوپہر) مسیح صلیب پر فوت ہو گئے<ref>مرقس کی انجیل اباب ۱۵</ref>۔ صلیبی موت کے عمل کو تیز کرنے کے لئے مصلوببین کی ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تاکہ وہ اپنا وزن نہ اٹھا سکیں اور اس طرح سارا وزن کلائیوں پر پڑنے کی باعث جلد ہی موت واقع ہو جائے۔ چنانچہ اناجیل کے بیان کے مطابق اس روز بھی سبت کے شروع ہونے کے خوف سے مسیح اور ان کے ساتھ مصلیب دیے گئے دونوں مجرموں کی ٹانگیں توڑنے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن اس کام پر مامور رومی سپاہی نے باقی دونوں مجرموں کی تو ٹانگیں توڑ دیں جبکہ مسیح کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ تاہم عیسائی عقیدہ کی رو سے مسیح نے اس وقت دعا کی کہ خدا کی مرضی پوری ہو اور اس کے بعد صلیب پر فوت ہو گئے۔ چنانچہ جب رومی سپاہی نے ان کی پسلی میں نیزہ بھونکا تو انہوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا۔
 
ازاں بعد مسیح کو ان کے ساتھیوں نے ایک کمرہ نما قبر میں رکھا جہاں وہ اتوار کو دوبارہ زندہ ہو گئے۔ چنانچہ اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ مختلف جگہوں پر اپنے حواریوں کو نظر آتے رہے یہاں تک کہ آخر کار آسمان پر اٹھا لئے گئے اور اس وقت خدا کے پاس موجود ہیں۔