"تصلیب مسیح" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 12:
یہودی عقیدہ کی روشنی میں یہ ضروری تھا کہ سبت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے مصلوب شخص کو صلیب سے اتار لیا جائے۔ ادھر چھٹے پہر کسی سورج گرہن یا آندھی کی وجہ سے اندھیرا چھا گیا<ref>مرقس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۳۳</ref>۔ چنانچہ نویں پہر (قریباً ۳ بجے بعد دوپہر) مسیح صلیب پر فوت ہو گئے<ref>مرقس کی انجیل اباب ۱۵</ref>۔ صلیبی موت کے عمل کو تیز کرنے کے لئے مصلوببین کی ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تاکہ وہ اپنا وزن نہ اٹھا سکیں اور اس طرح سارا وزن کلائیوں پر پڑنے کی باعث جلد ہی موت واقع ہو جائے۔ چنانچہ اناجیل کے بیان کے مطابق اس روز بھی سبت کے شروع ہونے کے خوف سے مسیح اور ان کے ساتھ مصلیب دیے گئے دونوں مجرموں کی ٹانگیں توڑنے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن اس کام پر مامور رومی سپاہی نے باقی دونوں مجرموں کی تو ٹانگیں توڑ دیں جبکہ مسیح کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ تاہم عیسائی عقیدہ کی رو سے مسیح نے اس وقت دعا کی کہ خدا کی مرضی پوری ہو اور اس کے بعد صلیب پر فوت ہو گئے۔ چنانچہ جب رومی سپاہی نے ان کی پسلی میں نیزہ بھونکا تو انہوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا۔
 
ازاں بعد آرمتیہ کے یوسف نے پیلاطوس سے مسیح کی لاش حاصل کر لی<ref>مرکس کی انجیل باب ۵، آیت ۴۲۔۴۳</ref>۔ مسیح کو ان کے ساتھیوں نے ایک کمرہ نما قبر میں رکھا<ref>مرکس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۴۶</ref>۔ جہاں وہ اتوار کو دوبارہ زندہ ہو گئے۔ چنانچہ اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ مختلف جگہوں پر اپنے حواریوں کو نظر آتے رہے یہاں تک کہ آخر کار آسمان پر اٹھا لئے گئے اور اس وقت خدا کے پاس موجود ہیں۔
 
مسیح کی صلیب پر موت یہودی شریعت کے مطابق ایک لعنتی موت تھی۔ عیسائی عقیدہ کے مطابق بھی اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے البتہ عیسائی عقیدہ میں مسیح کی صلیب پر لعنتی موت بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ضروری تھی۔ اس طرح گویا مسیح نے خود سخت تکلیف اٹھا کر اور موت کا جام پی کر تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ ان کا یہ اقدام خدا تعالیٰ کی انسانوں سے بے پایاں محبت کا مظہر ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کو انسانوں کی خاطر قربان کر دیا۔ چنانچہ عیسائیت کی مذہبی بنیاد میں مسیح کا ابن اللہ ہونا، ان کی صلیب پر موت اور پھر مردوں میں سے دوبارہ جی اٹھنے کی کلیدی حیثیت ہے۔