"تصلیب مسیح" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 8:
عیسائی عقیدہ کے مطابق مسیح کو، جنہیں یسوع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہود کے اصرار پر رومی حکمرانوں نے صلیب پر کھینچوا کر قتل کر دیا تھا۔ رومی گورنر پیلاطوس کے سامنے جب مسیح کو بطور باغی پیش کیا گیا تو اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسیح کو کسی طور چھوڑ دیا جائے۔ لیکن یہود ان کو قرار واقعی سزا دلوانے پر مصر رہے۔ آخر پیلاطوس نے یہود کے اصرار پر مسیح کو صلیب پر سزائے موت دینے کے احکامات صادر کر دیے۔
 
جمعہ کے روز دن چڑھ آنے پر مسیح کو پہلے کوڑوں کی سزا دی گئی اور پھر مروجہ طریق کے مطابق انہیں اپنی صلیب خود ہی اٹھا کر شہر کی فصیل سے باہر مقرر مقام تک لے جانا پڑی<ref>مرقس کی انجیل، باب ۱۵، آیت ۲۱</ref>۔ اس راستہ کو گلابوں کا راستہ کہا جاتا ہے اور بعض عیسائی حضرت مسیح کی یاد میں آج بھی اس راستہ پر صلیب اٹھا کر چلتے ہیں۔ گولگوتھا کے مقام پر پہنچ کر صبح تیسرے پہر (قریباً ۹ بجے) مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا گیا<ref>مرقس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۲۵</ref>۔ اس کے لئے ان کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں میں لوہے کے کیل ٹھونکے گئے جس کے بعد ان کے دونوں پائوں بھی ایک ہی کیل کے ذریعہ صلیب سے ٹھونک دیے گئے۔ مصلوب کو اس طرح کئی کئی دن صلیب پر لٹکنا پڑتا تھا اور رفتہ رفتہ کمزوری اور خون بہنے کے باعث سسکتے رہتے تھے۔ مسیح کے ساتھ دو ڈاکو بھی صلیب دیے گئے<ref>مرکسمرقس کی انجیل، باب ۱۵، آیت ۲۷۔۲۸</ref>۔
 
یہودی عقیدہ کی روشنی میں یہ ضروری تھا کہ سبت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے مصلوب شخص کو صلیب سے اتار لیا جائے<ref>اتثناء باب ۲۱ آیت ۲۲۔۲۳</ref>۔ ادھر چھٹے پہر کسی سورج گرہن یا آندھی کی وجہ سے اندھیرا چھا گیا<ref>مرقس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۳۳</ref>۔ ایسی صورت میں صلیبی موت کے عمل کو تیز کرنے کے لئے مصلوببین کی ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تاکہ وہ اپنا وزن نہ اٹھا سکیں اور اس طرح سارا وزن کلائیوں پر پڑنے کی باعث جلد ہی موت واقع ہو جائے۔ چنانچہ اناجیل کے بیان کے مطابق اس روز بھی سبت کے شروع ہونے کے خوف سے مسیح اور ان کے ساتھ مصلیب دیے گئے دونوں مجرموں کی ٹانگیں توڑنے کا فیصلہ ہوا<ref>یوحنا کی انجیل باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۷</ref>۔ لیکن اس کام پر مامور رومی سپاہی نے باقی دونوں مجرموں کی تو ٹانگیں توڑ دیں جبکہ مسیح کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ کیونکہ نویں پہر (قریباً ۳ بجے بعد دوپہر) <ref>مرقس کی انجیل اباب ۱۵</ref> مسیح نے صلیب پر دعا کی کہ خدا کی مرضی پوری ہو اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اسی لئے جب رومی سپاہی نے ان کی پسلی میں نیزہ بھونکا تو انہوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا<ref>یوحنا کی انجیل، باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۷</ref>۔
[[ملف:Christ at the Cross - Cristo en la Cruz.jpg|thumb|200px|''مسیح صلیب پر'', بلوخ کی تصویرکشی]]
 
ازاں بعد آرمتیہ کے یوسف نے پیلاطوس سے مسیح کی لاش حاصل کر لی<ref>مرکسمرقس کی انجیل باب ۵، آیت ۴۲۔۴۳</ref>۔ مسیح کو ان کے ساتھیوں نے ایک کمرہ نما قبر میں رکھا<ref>مرکسمرقس کی انجیل باب ۱۵، آیت ۴۶</ref>۔ جہاں وہ اتوار کو دوبارہ زندہ ہو گئے<ref>۱ کرنتھیوں باب ۱۵ آیت ۴</ref>۔ چنانچہ اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ مختلف جگہوں پر اپنے حواریوں کو نظر آتے رہے یہاں تک کہ آخر کار آسمان پر اٹھا لئے گئے<ref>مرکسمرقس کی انجیل باب ۱۶، آیت ۱</ref> اور اس وقت خدا کے پاس موجود ہیں۔
 
مسیح کی صلیب پر موت یہودی شریعت کے مطابق ایک لعنتی موت تھی۔ عیسائی عقیدہ کے مطابق بھی اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے<ref>گلیتیوں، باب ۳ آیت ۱۳</ref>۔ البتہ عیسائی عقیدہ میں مسیح کی صلیب پر لعنتی موت بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ضروری تھی۔ اس طرح گویا مسیح نے خود سخت تکلیف اٹھا کر اور موت کا جام پی کر تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ ان کا یہ اقدام خدا تعالیٰ کی انسانوں سے بے پایاں محبت کا مظہر ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کو انسانوں کی خاطر قربان کر دیا۔ چنانچہ عیسائیت کی مذہبی بنیاد میں مسیح کا ابن اللہ ہونا، ان کی صلیب پر موت اور پھر مردوں میں سے دوبارہ جی اٹھنے کی کلیدی حیثیت ہے۔