"ٹریفن کا مخمصہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
شہاب (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
شہاب (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 15:
The core of Triffin's Paradox is that the issuer of a reserve currency must serve two entirely different sets of users: the domestic economy, and the international economy.<br />
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکی ڈالر اپنے استحکام کی وجہ سے دنیا کی مقبول ترین کرنسی رہا ہے۔ ایسی کرنسی ریزرو کرنسی کہلاتی ہے کیونکہ ہر کوئی کسی ایسی غیر مستحکم کرنسی میں اپنی دولت رکھنا نہیں چاہتا جس کی قوت خرید گر سکتی ہے۔نتیجتاً دنیا بھر کے لوگ اور حکومتیں اپنی کرنسی سے ڈالر خرید لیتی ہیں تاکہ مستقبل میں کسی نقصان سے بچ سکیں۔ اس طرح ڈالر کی مانگ اور قیمت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو دوسرے ممالک کا سامان نہایت کم قیمت پر مل جاتا ہے اور امریکہ میں بڑی خوشحالی آ جاتی ہے۔ مگر ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے دو مسئلے جنم لیتے ہیں۔
* امریکہ کا بنا ہوا سامان بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگا ہو جاتا ہے اور بِک نہیں پاتا۔ اس طرح امریکہ کو تجارتی خسارہ ہونے لگتا ہے۔ امریکی سرمائیہ دار دوسرے ممالک میں صنعتیں منتقل کر دیتے ہیں جس سے امریکی افرادی قوت بے روزگار ہو جاتی ہے۔وقت کے ساتھ یہ تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ لوگوں کا ڈالر پر اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ اب لوگ ڈالر خریدنا کم کر دیتے ہیں۔ ڈالر کی ساکھ بچانے کے لیئے امریکہ کو [[شرح سود]] گرانی پڑتی ہے تاکہ لوگ ڈالر میں قرض لے کر اُن دوسرے ممالک کے بونڈ خرید لیں جہاں منافع زیادہ ملتا ہے۔ اس
*امریکہ کو سامان ایکسپورٹ کرنے والے غیر ملکیوں کے ہاتھ میں جب ڈالر آ جاتے ہیں تو وہ ڈالر سے سونا خریدنا شروع کر دیتے
ریزرو کرنسی کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیئے ڈالر کا ایکسپورٹ ہونا اور پھر واپس امریکی معیشت میں داخل نہ ہونا اتنا ضروری ہے کہ اس کے لیئے ہر دھونس دھمکی استعمال کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر جنگ بھی چھیڑ دی جاتی ہے جیسے کہ [[ویتنام کی جنگ]]۔ ڈالر ایکسپورٹ کرنے کے لیئے تیسری دنیا کو زبردستی قرضے دیئے جاتے ہیں۔
|