"موریا سلطنت" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 88:
شہر کے اندر پیدائش اور موت پر محصول لگا ہوا تھا۔ یہ بھی حکومتی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ جرمانہ کی رقم بھی معقول ہوتی تھی۔ مجرمین سے زیادہ تر جرمانے ڈنڈ Dand وصول کئے جاتے تھے۔ ان محصولات کے علاوہ خراج کی آمدنی بھی تھی جو ماتحت ریاستوں سے وصول کی جاتی تھی۔ مال غنیمت جو جنگوں میں ہاتھ لگتا تھا اور نذرانے جو سردار مختلف مواقع پر راجہ کی خدمت گذانتے تھے۔ اس کے علاوہ ضرورت کے موقع پر غیر معمولی محصول لگادیا جاتا تھا۔
سرکاری محصول نقد و جنس دونوں صورتوں میں وصول کئے جاتے تھے۔ وصول میں بالعموم سختی برتی جاتی تھی۔ اکثر ایسے تذکرے اور حوالے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کاشکاروں نے عاملوں کے ظلم و ستم اور لگان کی زیادتی سے تنگ آ کر زمین کو چھوڑ دیا اور جنگلوں کی طرف بھاگ گئے۔ بیگار کا عام رواج تھا، ہر اہل ہنر اور کاریگر کو مہینہ میں دو دن سرکاری کام کرنا پڑتا تھا۔ جس کی انہیں مزدوری نہیں ملتی ہے۔
اس عہد کی طرح موریہ بھی نیم فوجی حکومت تھی اور طاقت کا دارو مدار فوج پر تھا۔ وہ اپنی فوج کے بل پر ہی اپنی حکومت قائم کی اور لوگوں کے دلوں پر اپنی ہیبت قائم رکھ سکے۔ موریا عہد میں فوج کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کی تعد بڑھ کر چھ لاکھ سے بھی تجاوز ہوگئی۔ پلینی Pliny کے بیان کے مطابق چندر گپت کی فوج میں چھ لاکھ 600000 پیادہ 30000 تیس ہزار سوار اور نو ہزار 9000 ہاتھی شامل تھے۔ مگھشنز کے بیان کے مطابق اس عظیم انشان فوج کی نگرانی ایک مجلس کے سپرد تھی جو تیس اراکین پر مشتمل تھی اور جو مزید چھ ذیلی مجلسوں میں تقسیم بٹی ہوئی تھی۔ ہر ذیلی مجلس کے سپرد فوج کا خاص حصہ تھا۔ پہلی دریائی بیڑہ کی دیکھ بھال۔ دوسری پیادہ افوج کا انتظام۔ تیسر سوار فوج کا انتظام۔ چوتھی رتھوں کا انتطام۔ پانچویں ہاتھیوں کا انتظام۔ چھٹی سامان رسد م بار برداری، طبلچی، سائیس، گھسیارے اور کاری گروں کی دیکھ بھال پر معمول تھا۔
مگھیشنز کے بیان کی تصدیق کسی اور زرائع سے نہیں ہوتی ہے پھر بھی اس سے اتنا اندازہ ہوجاتا ہے کہ موریا عہد میں فوج کا محکمہ منظم اور مستحکم تھا۔ اشوک نے عدم تشدد کے اصول کو اپنایا اور اس محکمہ کی طرف سے غفلت برتی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ملک فوجی لحاظ سے کمزور ہوگیا اور داخلی انتشار کے ساتھ عرصہ تک بیرونی حملوں کا شکار ہوتا رہا۔
مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ملک کی آبادی چار ذاتوں برہمن، کشتری، دیش اور شودر میں بٹی ہوئی تھی حکومت و سیاست اور جنگ و جدل سے متعلق تمام باتیں کشتری کے متعلق تھیں۔ صرف وہی فوجی خدمت کے لائق سمجھے جاتے تھے، مگر غالباً موریاؤں نے اسے نظر انداز کیا فوج کے تمام اعلیٰ اختیارات راجہ کو حاصل تھے۔ وہی سپہ سالاری کا کام بھی انجام دیتا تھا۔ خود خون و کشت میں حصہ لیتا تھا اور سپاہیوں لڑاتا تھا وہ رتھ یا ہاتھی پر سوار ہو کر میدان جنگ میں آتا تھا۔ ارتھ شاستر میں اسے پیچھے رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وہ دشمنوں کے نرغے سے بچ سکے۔ راجہ کی عدم موجودگی میں سپہ سالار جسے سینہ پتی کہتے تھے فوج کی قیادت کا کام انجام دیتا تھا۔ سینہ پتی بہت با اثرعہدہ تھا۔ عملی طور پر وہی پوری فوج کا قائد تھا۔ راجہ اس پر اپنے کسی عزیز یا خاص معتدی کو اس عہدے پر فائز کرتا تھا۔ اس کے تحت دوسرے بہت سے فوجی سالار تھے جو نایک Nayaka اور دندا نایک Danda Nayakaکہلاتے تھے۔
اپنی ترکیب کے لحاظ سے فوج پیادہ، سوار، جنگی رتھوں اور ہاتھیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہاتھیوں پر زیادہ بھروسہ کیا جاتا تھا۔ موریہ عہد میں رتھوں کو اہمیت حاصل رہی۔
موریاؤں کے عہد میں جنگی آلات اور اسلحہ کو ترقی دینے کی کوشش نہیں کی۔ وہی نیزہ، بھالا، ڈھال، گزر، خنجر اور تیر کمان تھے ان کے پاس زرہ بکتر اور خود کی کمی تھی۔ ان کے قلعہ شکن آلات ناقص تھے۔
== عدالت و قوانین ==
عدلیہ کے تمام اعلیٰ اختیارات حکمرانوں کو حاصل تھے۔ وہی ملک کا سب سے بڑا قاضی تھا۔ اس کے فیصلے پر کسی کو نظر ثانی کا حق حاصل نہیں تھا۔ وہ دربار عام میں میں مقدمات کے فیصلے کرتا اور اپنے فیصلے صادر کرتا تھا۔ ان کی فیصلے میں کسی غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔ کیوں کہ وہ خدائی ارادہ کا مظہر نہیں تھی۔ توقع کی جاتی تھی کہ وہ مذہبی آئین و قوانین کے تحت فیصلے کرے گا۔ مگر وہ اس کا پابند نہیں تھا۔ ارتھ شاستر میں اس کے حکم کو تمام قوانین سے بالاتر بتایا ہے۔
|