"اردو کی آخری کتاب (تصنیف)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
clean up, Replaced: → (2),, typos fixed: کتابوں → کتب, لئے → لیے (18) using AWB
سطر 1:
اردو ادب میں مزاحیہ اور طنزیہ ادب لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ صرف نام گنوانے کے لئےلیے ہی کئی صفحات چاہئیں۔ اس فہرست میں ایک چمکتا ہوا نام ”ابن انشاء“ کا ہے ابن انشاءادب مزاح کی گراں قدر مالا کا وہ خوبصورت موتی ہے۔ جو موزنیت اور مناسبت کے لحاظ سے ہر رنگ میں اپنا جواب آپ ہیں ۔ اس نگینے سے نکلنے والی چمک خواہ شاعری میں ہو ، خواہ نثر میں ہر جگہ منفرد اور نمایاں ہے۔بقول محمد اختر صاحب، ” ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے۔“
 
دور جدید کے عظیم مزاح نگار ”مشتاق احمد یوسفی “ ابن انشاءکے بارے میں لکھتے ہیں، ”بچھو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے انشاءجی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔“
 
ابن انشاء اردو ادب میں ایک رومانی شاعر، ایک حساس کالم نویس، سفرنامہ نگاراور طنز و مزاح کے حوالے سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں ۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خود فنکار ادب میں ایک سے زائد اصناف میں کام کرتے ہیں تو اُن کی تخلیقی قوت منتشر ہو جاتی ہے لیکن ابن انشاءکا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہر صنف ادب میںاپنا لوہا منوایا ہے اگرچہ اپنے اظہار کے لئےلیے انہوں نے کئی میدانوں کا انتخاب کیا ۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کا دل شاعر ہے اور دماغ بہترین نثرنگار ۔اُن کے سفرنامے ”چلتے ہو تو چین کو چلیے ،”دنیا گو ل ہے“، ”آوارہ گرد کی ڈائری“ ، ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں “ ، طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کے حامل ہیں ۔ لیکن ان دو کتابوںکتب کومکمل طور پر مزاح کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں ۔ ایک ”اردو کی آخری کتا ب“ اور دوسری ”خمار گندم“ ۔آئیے اُن کی کتاب ”اردو کی آخری کتاب “ کا جائزہ لیتے ہیں۔
 
== اردو کی آخری کتاب کا فن ==
سطر 13:
”اردو کی آخری کتاب“ 1980ءکے ہنگامی حالات کے پس منظر میں لکھے گئے روزنامچوں کا مجموعہ ہے اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اخبار کی زندگی ایک روزہ ہوتی ہے اور صحافتی نثر ادبی نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ابن انشاءکا معاملہ برعکس ہے نہ تو سطحی کالم نویس تھے کہ ان کے کالم وقتی لحاظ سے تو جوش پیدا کرتے لیکن زمانے کی گرد انہیں ختم کر ڈالتی ہے اور نہ انھوں نے صحافتی زبان کو ادبی زبان میں ضم ہونے دیا۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ عام قاری اور ادب کے طالب علم دونوں کو متاثر کیا۔
 
1970ء میں ملک جس سیاسی ابتری اور جوشیلی سیاست کا شکار تھا۔ اس کوایک حساس فنکار نے کس طرح محسوس کیا ہے اور برتنے کے لئےلیے طنز و مزاح کا سانچہ اختیار کیاہے وہ قابل رشک ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کسی موقع پر ابن انشاءبھی اس ہنگامی صورتحال سے اضطراری کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ لیکن یہ تاثر زیادہ نہیں ۔ اردو کی آخری کتاب کا تاریخ کا حصہ اس بات کی غمازی کرتا ہے۔
 
اردو کی آخری کتاب کا اسلوب رواں دواں اور سلیس ہے ابن انشاءنے آزاد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور بنیادی طور پر ابن انشاءشاعرانہ مزاج کے حامل ہیں ۔ اس لئےلیے اُن کی نثر میں قافیہ پیمائی ، لفظی تکرار ، اور موسیقیت کااحساس گہرا ہے۔ پطرس نے مزاح کی ابتداءدیباچے سے کی تھی جبکہ ابن انشاءنے یہ انتظار بھی نہیں کیا۔ اور کتاب کے سرورق پر ''(نامنظور کردہ ٹیکسٹ بک بورڈ)'' کا عنوان دے کر ہنسی کو تحریک دی ہے۔ پوری کتاب نجمی کے 101 کارٹونوں کے ساتھ نئی بہار دکھاتی ہے ۔ ان کارٹونوں کی وجہ سے کتاب کی دلچسپی اور دلکشی میں اضافہ ہوا ہے۔اس لئےلیے خالد احمد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ، ” اردو کی آخری کتاب کے مصنف دو ہیں ایک ابن انشاءاور دوسرے نجمی۔“
 
مشتا ق احمد یوسفی جو خود بھی مزاح کے شہسوار ہیں ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں، ” بے شمار خوبصورت لیکن متروک اور بھولے بسرے الفاظ کوان کی رواں دواں نثر نے ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں ناقابل تقلید بھی ہے۔“
 
کتاب کی پیش کش کا انداز بہت ہی بہترین ہے کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لبوں پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور دلکش ، طنزیہ اور مزاحیہ فقروں سے بھر ی پڑی ہے۔ چنانچہ کتاب کے ابتدائی ابواب میں درج سوالات ، سبق آموز کہانیاں، ریاضی کے قاعدے ، جانوروں کا بیان، پرندوں کا احوال ، رامائن اور مہا بھارت کے زمانے سے لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور تک کی تاریخ، جغرافیے کے اسباق، مناظر قدرت کے تذکرے ، ابتدائی سائنس اور گرائمر کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے ۔ اور تو اور مولانا شیخ سعدی کی حکایات کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔
 
== طنزیہ اسلوب ==
 
کتاب کی سب سے اہم خصوصیت اس کا طنزیہ انداز بیان ہے ان کا طنز تلخ حقائق پر مبنی ہے لیکن اس میں تلخی نہیں ۔ زبان کی شیرینی نے اس کی تلخی کو چھپا لیا ہے۔ لہٰذا اس کے طنز کو آسانی سے گوارا کیا جا سکتا ہے ۔ خلائی دور پر طنز ، صنعتی دور پر طنز، پتھر کے دور پر طنز، اخبار پر طنز ، کراچی کارپوریشن پر طنز، ابن انشاءکی طنز کے چند جھروکے ہیں۔ اس کے علاوہ مصنف نے کتاب کے شروع میں خبردار کیا ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ ملحوظ رکھاجائے کہ یہ کتاب صرف بالغوں کے لئےلیے ہے ۔ یعنی ذہنی بالغوں کے لئےلیے اور یہ کہ اسے چھوٹی عمر کے طالب علموں سے دور رکھا جائے۔ورنہ مولف نتائج کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
ابن انشاءکو مت پڑھ<br>
ورنہ تیرا بیڑا پار نہ ہوگا<br>
اور ہم سے کوئی نتائج <br>
کا ذمہ دار نہ ہوگا<br>
 
ان کی اس تنبیہ کا اندازہ جلد ہونے لگتا ہے جب اسباق کے آخر میں اس قسم کے سوالات پوچھتے نظرآتے ہیں کہ<br>
سطر 35:
سادگی و پرکاری کے ساتھ یہ بات ایک گہری معنی بھی رکھتی ہے اور یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ مادی اشیاءکے علاوہ روحانی پاکیزگی اور بالیدگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب کی طر ف واضح اشارہ ملتا ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف ملکو ں میں ایک قوم آبادہے اور ہمارے ہاں کوئی ، پنجابی ہے کوئی پٹھان ، کوئی سندھی کوئی بلوچی ۔ اس سبق کا آخری فقرہ اتنا تیکھا ہے کہ اس کی مثا ل طنزیہ ادب میں نہیں ملتی ۔<br>
” پھر الگ ملک کیوں بنایا تھا غلطی ہوئی معاف کیجیے گا آئندہ نہیں بنائیں گے۔“<br>
کتاب کو پڑھ کر انکشاف ہوتا ہے کہ ابن انشاءکاسیاسی اور معاشرتی شعور کتنا پختہ اور متوازن ہے وہ کسی مخصوص نظریے کی عینک نہیں لگاتے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر کو اُس رخ سے دیکھتے ہیںجس رخ میں ہمیں دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے ۔ اس لئےلیے قاری اُن کے زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اور اُن طنز کو گوارا کر لیتاہے۔
 
== تمثیلی انداز رمزیہ انداز ==
 
اس کتاب کا انداز کہیں تمثیلی اور کہیں رمزیہ ہے اُن کا ہر حربہ اور تجربہ حد درجہ کامیاب ہے۔جس میں ہماری قومی کوتاہیوں کا ذکر بھی ہے اور انفرادی خود غرضیوں کا تذکرہ بھی وقتی فائدے کے لئےلیے ناجائز ذرائع پر ایمان کی داستان کا بیان بھی ہے اور اس دور کے حکمرانوں کی نااہلیاں اور حماقتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایسے لطیف او ر شگفتہ انداز میں ہے کہ قاری دیر تک اس سے لطف انداز ہوتا رہتا ہے۔ حکمرانوں کے اردگرد خوشامدیوں کی کمی نہیں ۔ ”دین الٰہی“ کے عنوان سے ایسے لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو حکمرانوں کے اردگرد خوشامد کرتے ہیں اوریہ ایسا موضوع ہے جو ہر زمانے میں رائج رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔<br>
”چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا ۔ مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی تو ایسا دانا فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیر ہ رہنا چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہلال جرات ملنا چاہیے ۔ بلکہ خود لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن کو دین الٰہی نہیں کہتے۔“<br>
”ہمار اتمہار خدابادشاہ“ اور ”برکات حکومت انگلیشیہ “ میں ابن انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔
سطر 45:
== ریاضی کا حصہ ==
 
کتاب میں ریاضی کا حصہ بھی بہت دلچسپ ہے یہاں ابن انشاءکی طبیعت کی روانی قابل دید ہے جس سے مزاح کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کی کوشش شعوری نظر نہیں آتی ۔ بلکہ ایک شرارت بھرا تبسم ہے جو مصنف کے ہونٹوں پر مسکراتا ہے۔وہ معمولی چیزوں کے غیر معمولی پہلوئو ں کو سامنے لانے پر قدرت رکھتے ہیں۔مثلاً حسابی قاعدوں میں جمع تفریق اور تقسیم کے قاعدے میں طنز کا تیز نشتر لئےلیے ہوئے ہے۔
 
=== جمع ===
جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لئےلیے مختلف ہے عام لوگوں کے لئےلیے ایک جمع ایک برابرڈیڑھ ہے کیونکہ آدھا انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں تجارت کے قاعدے سے ایک جمع ایک کا مطلب گیارہ ہے رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔“
 
=== تقسیم ===
سطر 62:
== تاریخ مغلیہ ==
 
کتاب کا سب سے کمزور حصہ ”تاریخ مغلیہ“ سے شروع ہوتا ہے جب ابن انشاءمکمل طور پر ہنگامی حالات کو موضوع ِ مزاح بناتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ جب یہ اخباری کالم لکھے گئے ہوں گے تو بلا شبہ قارئین کے لئےلیے ان میں غیر معمولی دلچسپی اور جاذبیت کا سامان تھا لیکن ادبی نقطہ نظر سے ایسی تحریروں میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اور بعد میں آنے والوں کے لئےلیے ایسے فن پاروں میں لطف کا کوئی سامان نہیں رہتا۔ مثلا اس حصے میں ”بادشاہ اکبر “ فیلڈ مارشل ایوب خان کو کہا گیا ہے۔ اور نورتن اُس دور کے مرکزی حکومت کے وزراءہیں۔ لیکن آج کے قاری کویہ باب سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
 
== گرائمر ==
سطر 76:
== قافیہ پیمائی ==
 
فنی لحاظ سے ابن انشاءنے جمالیاتی قدروں کو برتا ہے اور اس کے لئےلیے انھوں نے ایک خاص طریقہ قافیہ پیمائی کا تیا ر کیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابن انشاءکو اردو نثر کے قدیم سرمائے سے نہایت دلچسپی رہی ہے اور بنیادی طور پر وہ ایک رومانی شاعر بھی ہیں ۔ اس لئےلیے ان کے اسلوب میں ایک روانی ہے اور زبان کی مٹھاس کا احساس ہوتاہے ۔ فن کی اسی رنگینی کو ان کے حسین مزاح نے مزید نکھار دیا ہے۔ مثلاً<br>
”جو زیادہ گنے کھائے گا شکر کی بیماری پائے گا سوئیاں لگوائے گا چلا ئے گا ۔ مارا جائے گا۔“
”علم بڑی دولت ہے تو بھی سکول کھول، علم پڑھا ، فیس لگا، دولت کما، فیس ہی فیس ، پڑھائی کی بیس، بس کے تیس، یونیفارم کے چالیس۔“<br>
”سبزی کا خیال چھوڑ ، وٹامن سے منہ موڑ ، مسور کی دال کھا اپنے منہ پہ نہ جا۔ “
ابن انشاءکی یہ کتاب انسانی زندگی اور اس کے بے شمار پہلوئوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ابن انشاءکے لئےلیے انتظامی پیچیدگیاں ، انتخابات ، حکایات ، فرسودہ نظام تعلیم ، تجارت ، سیاست ، رشوت اور تعصب ہر موضوع پر اظہار خیال کرنا آسان ہے۔
 
== جغرافیہ ==
سطر 96:
== سائنسی اصطلاحات ==
 
یہ ابن انشاءکی شوخی طبع کا خاصہ ہے کہ انھوں نے علم کے ہر شعبے کونہایت شگفتگی او ر اختصار کے ساتھ مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے ریاضی کی طرح سائنسی اصطلاحات سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھا یا ہے۔ مادہ کی قسم گیس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
” گرمیاں آتی ہیں تو کراچی کا محکمہ واٹر سپلائی پانی کے نلکوں میں گیس سپلائی کرنے لگتا ہے اس لئے غسل خانوں میں روٹی پکاتے اور باورچی خانوں میں (پسینہ میں ) نہاتے دیکھے جاتے ہیں۔“
” کوئی شخص حکومت کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اُس کے لئے اُٹھنا مشکل ہو جاتا ہے لوگ زبردستی اٹھاتے ہیں یہ بھی کشش ثقل کے باعث ہے۔“
سطر 102:
== حکایات ==
 
ابن انشاءنے اس کتاب میں حکایات لقمان ، حکایات سعدی اور حکایات انوار سہیلی کی طرز پر کچھ حکایات بھی بیان کی ہیں۔ چونکہ ان حکایات میں سے بیشتر الیکشن 1970ءکے دنوں کی یادگا ر ہیں اس لئےلیے ابن انشاءنے الیکشن کے حوالے سے منشور ، نعروں اور وزارتوں کے پیچھے بھاگنے والے ناعاقبت اندیش اور لالچی لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تقریباً ہر حکایت میں ایسے لوگوں کو اشاروں کنایوں میں سبق آموز درس دینے کی کوشش کی گئی ہے۔مثلاً متحدہ محاذ کے بارے میں فرماتے ہیں، ” ہر محاذ میں عموماً ایک شیر باقی گدھے ہوتے ہیں تقسیم شکار کی ہو یا ٹکٹوں کی اس میں شیر کا حصہ خاص ہوتا ہے ۔ اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو گدھا ہے۔
 
== جانوروں اور پرندوں کا بیان ==