"جوہری ہتھیار" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 19:
جوہری یا مرکزی حکمت عملی میں جنگ کرنے اور جنگ نہ کرنے کے مقاصد پر تحقیق کی جاتی ہے۔ [[جوہر|جوہری]] یا مرکزی طاقت رکھنے والے کسی دوسرے [[ملک]] کی جانب سے [[مرکزی حملہ]] کو روکنے کی خاطر اسکو دھمکانے کے لیے اپنی جوہری یا مرکزی طاقت کا مظاہرہ کرنا [[نظریہ رد|مرکزی رد حرب]] یا دفع حرب (nuclear deterrence) کہلاتا ہے۔ رد حرب میں پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ جوابی حملہ کی صلاحیت کو برقرار رکھا جاۓ ، یعنی اگر کوئی آپکے ملک پر جوہری یا مرکزی حملہ کرتا ہے تو آپ کو اپنے جوہری ہتھیاروں سے اس پر جوابی کاروائی کرنا ہوگی۔ [[ابتدائی حملہ|ابتدائی حملے]] (first strike) کے اختیار کو استعمال کرنے پر بھی غور کیا جاتا ہے اور اس کو اسی وقت مناسب سمجھا جاتا ہے کہ جب کاروائی کرنے والا اس قدر صلاحیت اور طاقت رکھتا ہو کہ وہ مخالف ملک کی جوہری طاقت کو اسے استعمال کرنے کی نوبت آنے سے قبل ہی مفلوج کردے۔ [[سرد جنگ]] کے دوران ، جوہری ہتھیاروں کے حامل [[ملک|ممالک]] کے لائحہ عمل کے تشکیل کاروں اور حربی نظریہ سازوں نے اس بات پر بہت تحقیق کی کہ ایسی کون سی حکمت عملیاں اختیار کی جائیں کہ جن سے جوہری حملہ سے ہمیشہ کے لیے بچا جاسکے ۔
 
جوہری یا مرکزی ہتھیاروں کی اقسام کے لحاظ سے انکو پہنچانے والے زرائع بھی مختلف اختیار کیے جاتے ہیں جو کہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گراۓ یا پھنکے جانے والے مرکزی ہتھیاروں کے کا توڑ نہ کیا جاسکے اور انکے خلاف کوئی [[پیشگی بچاؤ]] (pre-emptive) کا اسلحہ چلانا بھی ناممکن نہیں تو مشکل تر ضرور ہو۔ہو۔ایٹم سے ایٹم بم تک
تحریر
علامہ یوسف جبریلؒ
پانچویں صدی قبل مسیح میں ایک یونانی فلسفی ڈیموکرٹس نے کہا تھا کہ’’ کائنات ایسے آوارہ مزاج ذروں سے تشکیل پذیر ہوئی ہے جو بے مقصد ملتے اور بچھڑتے پھرتے ہیں‘‘ ۔یہ چند بظاہر سادہ و معصوم سے الفاظ اپنی گہرائیوں میں بے پناہ معانی لئے ہوئے ہیں، یہ الفاظ الہٰیاتی نظام، مقصودِ آفرینش ،قیامت، حیات بعد الممات ، سزا و جزا کی قطعی نفی کرتے ہیں۔یہ چند بظاہر بے مقصد و بے معنی الفاظ در حقیقت اپنے اندر دنیا کا ایک المیہ سمیٹے ہوئے تھے اور اگرچہ بالعموم یہ ایٹمی نظریہ ڈیموکرٹس کے نام ہی سے وابستہ ہے لیکن حقیقت میں یہ نظریہ ایک دوسرے شخص لیوسپس کا ہے تاہم وہ ڈیموکرٹس ہی ہے جس نے اس نظریئے کو پروان چڑھایا اور دنیا میں اسے روشناس کرایا ۔لیوسپس کے متعلق ہم اس سے زیادہ نہیں جانتے کہ وہ مائلزیا یونان کا باشی تھا ۔ اور یہ کہ وہ 440قبل مسیح میں تھا۔
ڈیموکرٹس ازمنہ قدیم کے عظیم فلسفی سقراط کا نو خیز ہمعصر تھا ۔ ایتھنز میں ان کی ملاقات ہوئی مگر سقراط نے اس کے ایٹمی نظریئے کو رد کر دیا ۔سقراط کے جلیل القدر شاگرد افلاطون اور افلاطون کے عظیم المرتبت شاگرد ارسطو نے اپنی تمام تر قوت اس نظریئے کو تباہ کار خیال کرتے ہوئے اس کے مخالف پلڑے میں ڈال دی اور غالبا اسی ارسطو کے اثر ونفوذ کا کرشمہ ہے کہ ارسطو کی موت کے دو سو سال بعد تک کسی فلسفی یا کسی حکیم نے ایٹمی نظریئے میں غور و فکر تو درکنار اس نظر یئے کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا حالانکہ یہ دو صدیاں اس نظریئے کا جستجو کے لحاظ سے انسان کی فکری تاریخ میں ایک امتیازی مقام کی حامل ہیں ۔انہیں دو صدیوں میں اقلیدس بھی پیدا ہوا جس کی کتاب ’’ایلمنٹس‘‘ دو ہزار برس تک حساب کی نصابی کتاب رہی اور ارسٹو تھینز بھی جس کے سر اس طریقے کا اولین سہرا ہے جس کے ذریعے زمین کا حجم معلوم کیا جاتا ہے ۔ارشمیدس لیور کے اصول کا اولین کاشف اور ہپارکس جسے علم نجوم کا باپ مانا گیا ہے تاہم اس نادرہ روزگار شخصیتوں میں سے کسی نے بھی ایٹمی نظریئے کا نام تک نہیں لیا کیونکہ اس نظریئے کے موجد ڈیموکرٹس اور لیوسپس دونوں ملحد اور منکر تھے اور ان کے اس نظریئے میں کفرو الحاد کے جراثیم پنہاں تھے اور زود یا بدیر انسانیت کو تباہ کرنے کی بیشتر خاصیتیں اپنے اندر لئے ہوئے تھے ۔
تاہم اس سخت غیر مقبولیت کے ماحول میں ایک مکتب فکر ایسا بھی تھا جس نے ایٹمی نظریئے کو علامت کے طور پر اپنا لیا ۔اس مکتب فکر کا بانی ایک شخص ایپی کیوریس تھا ۔اسی مناسبت سے اس مکتب فکر کو ایپی کیورین کے نام سے پکارا جاتا تھا البتہ ایٹمی نظریئے کے ساتھ ان لوگوں کی دلچسپی محض اس کے الحادی پہلو کی وجہ سے تھی ۔اس نظریئے کی سائنسی افادیت کے ساتھ ان کو دور کا واسطہ بھی نہ تھا ۔یہ لوگ اسی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے فکر و غم سے گریزاں اور عیش و آسودگی کے جوایا ہونے کے سبب اس کائنات کے الیہاٰتی نظام ،الہیٰ حکومت ، قیامت ، سزاو جزا اور حیات و ممات کے منکر اور ایٹمی نظریئے کے مداح تھے ۔نتیجہََ لوگ اپنی عیش کوشی اور لامحدود وارفتگیوں کے سبب بہت جلد رسوائے زمانہ ہو گئے حتی کہ ایپی کیورین کا لفظ بذات خود ایک گالی تصور کیا جانے لگا ۔
ابتدا سے ہی اس مکتب فکر کاحریف ایک اور مکتب فکر تھاجسے سٹوئک کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کے عقائید اول الذکر مکتب فکر سے کلیتََہ متضاد تھے ۔یہ لوگ الہٰیاتی نظام حکوت کے قائل اور ایک سخت اخلاقی ضابطہ حیات کے پابند تھے ۔رفتہ رفتہ یہ مکتب فکر غالب آ گیا حتیٰ کہ عیسائیت نمودار ہوئی ،عیسائیت اور سٹوئکزم کے اصول آپس میں میل کھاتے تھے۔ لہذا دونوں نے مل کر ایپی کیورزم کا مقابلہ کیا اور بالآخرجب پانچویں صدی عیسوی میں عیسائیت سلطنت روما کا سرکاری مذہب بن گئی تو ایپی کیورین ازم ایپی کیورین کے ساتھ ایٹمی نظریئے کا خاتمہ ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے ایٹم بم کی پیشین گوئی ساتویں صدی عیسوی میں کی جب کہ ایٹمی نظریئے کا دنیا میں کہیں وجود تک نہ رہا تھا اور نہ ہی کسی کو یہ شک گذر سکتا تھا ۔کہ کبھی دنیا میں یہ نظریہ پھر سے سر اٹھائے گا۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں افلاطون اور ارسطو نے اپنی تمام تر طاقت ایٹمی نظریئے کے خلاف صرف کر دی اور پہلی صدی عیسوی میں جب حکیم جالینوس نے اپنا فتوی ٰاس نظریئے کے خلاف صادر کر دیا تو یہ نظریہ گہنا گیا اور عیسائیت نے اس نظریئے کے حامل مکتب فکر کو کچھ اس طرح تہس نہس کر دیا کہ کامل ایک ہزار برس یعنی سولہویں صدی تک اس نظریئے کا گرہن ختم نہ ہو سکا ۔سولہویں صدی عیسوی میں ایک رومن کیتھولک پادری پیری گیسنڈی کو سوئے اتفاق یا حسن اتفاق (ثبوت وقت دے گا) سے ایپی کیورس کے ایک پیرو اور زبردست مداح شاعر لیوکرٹس نامی کی ایک نظم’’ ڈے ریرم نیچورا ‘‘کا کچھ حصہ کہیں سے دستیاب ہو گیا ۔ اس نظم میں ایٹمی حکمائے یونان کا قدیم ایٹمی نظریہ موجود تھا ۔پیری گیسنڈی اس حکمت پارے کو لے دوڑا اور مادہ پرستی کی آرزو کی آگ میں سلگتے ہوئے یورپ کو اس سے روشناس کرا دیا،اسے فرانسس بیکن جیسا قلم کار میسر آیا ۔ جس نے مغرب میں ایٹمی نظریئے کا ڈنکا بجا دیا۔ نظر غائر سے بیکن کی تحریروں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مادی قدروں کو روحانی قدروں سے متوازن کرنے کی سعی کی ہے مگر اس کے پیرو جلد ہی روحانی قدروں سے کترا کر فوری مادی منفعت کی طرف یکسر مائل ہو گئے اور روح و مادہ کے اس افتراق نے یورپ کو یورپ کے ساتھ ساری دنیا کو وہاں لا کر کھڑا کر دیا جہاں اسے آج ہم سب دیکھتے ہیں۔
اگرچہ نیوٹن، بوائل وغیرہ ایٹمی نظریئے کو درست سمجھتے تھے تاہم اس نظریئے کو اس وقت تک حقیقی معنوں میں اپنایا نہ جا سکا جب تک کہ ایک سکول ماسٹر جان ڈالٹن (1766-1844) کے ایٹمی تجربوں کا خلاصہ دنیا کے سامنے نہ آ گیا ۔اور وہ یہ ہے :۔
(۱) مادہ ایٹموں سے مرکب ہے ۔یہ ایٹم نہ تو تخلیق کئے جا سکتے ہیں نہ معدوم اور یہ کہ کیمیاوی تبدیلی عبارت ہے ان ایٹموں کی آمیزش سے الگ الگ ہوں یا ان ایٹموں کی علیحدگی سے جو باہم مرکب ہوں اور یہ کہ ایٹموں میں بنفسہ کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔
(ب) کسی بھی ایک عنصر کے ایٹم باہم دیگر بالکل یکساں ہیں اور دوسرے عناصر کے ایٹموں سے وزن کے معاملے میں مختلف ہوتے ہیں
اگرچہ بعد کی تحقیقات نے ڈیلٹن کی تحقیقات میں بعض سقم نمایاں کئے ہیں ۔ تاہم جدید لباس میں اسے اب بھی مقام حاصل ہے ۔ ڈیلٹن کے اس جدید نظریئے کے مقابل میں قدیم ایٹمی نظریئے کا حوالہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا اور وہ مندرجہ ذیل ہے :۔
(۱) ایٹم نہ تو توڑے جا سکتے ہیں ۔نہ ہی معدوم کئے جا سکتے ہیں۔
(ب) ایٹم خالی فضاء میں بے مقصد ادھر ادھر گھومتے پھرتے ہیں ۔
(ج) فضا اور ایٹموں کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں ۔
(د) ایٹموں کی مختلف قسمیں ہیں۔ ان کا باہمی اختلاف ان کے صوری اختلاف پر مبنی ہے تاہم انفرادی ایٹم اس قدر چھوٹے ہیں کہ ہماری راحیںٍ ان کے ادراک سے قاصر ہیں ۔
(ر) یہ چیزیں جن کو ہم چھوتے ہیں یا دیکھتے ہیں ایک خاص دستور سے جڑے ہوئے گروہ در گروہ ایٹموں سے مرکب ہیں تبدیلی صرف ایٹموں کے جڑنے کی خصوصی ترکیب ہی سے رونما ہوتی ہے ورنہ ایٹموں میں فی نفسہ کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا۔
(س) ایک ایٹم کی حرکت بدستور جاری رہتی ہے جب تک کہ اسے روکا نہ جائے ،یہ رکاوٹ غالباََ کسی دوسرے ایٹم کے ساتھ تصادم سے پیدا ہوتی ہے ۔حرکت کا یہ نظریہ اس لئے اہم تصور کیا جاتا ہے کہ آگے چل کر انرشیاء(Inertia) کے قانون کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔
ڈیلٹن کی ایٹمی تحقیقات بے شک ایٹمی سائنس کا رخ متعین کرنے میں ایک سنگ میل کا حکم رکھتی ہیں تاہم اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ تانگے میں بیٹھ کر سٹیشن کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور ایٹمی سائنس اپنی ایٹمی منزل کی جانب روانہ ہونے کے لئے ایٹمی گاڑی میں سوار اس وقت ہوئی جب نہایت ہی غیر متوقع طور پر جرمن سائنس دان رونٹجن نے ۱۸۹۵ ء میں ایکسرے کی دریافت کی ۔اس عجیب و غریب انکشاف نے سائنس کی دنیا میں ایک برقی لہر دوڑا دی اور ایسامعلوم ہوتا ہے جیسے کسی غیبی ہاتھ نے سائنس کو چپکے سے تباہی کی طرف پٹڑی پر ڈال دیا ۔ اس عجیب و غریب چیز ایکسرے اور شعاع کے مابین باہمی تعلق کی دریافت کی کوشش میں فرانسیسی سائنس دان بیکورل کی نگاہ انتخاب حسن اتفاق سے جس عنصر پر پڑی، وہ یورانیم نائٹریٹ تھا ۔اسے بھی کسی غیبی قوت کا کرشمہ ہی جانیئے جو انسانیت کو تباہی کی جانب لے جانے پر مائل معلوم ہوتی تھی ۔ بیکورل نے ۱۸۹۶ء میں ریڈیائی تابکاری کا انکشاف کر ڈالا جس کی بنا پر جلد ی ہی پیری (Pierre)اور مادم کیوری (MadamCurie)نے ریڈیم ڈھونڈھ نکالا۔۱۹۰۵ ء میں آئن سٹائن نے اپنا معروف زمانہ نظریہ اضافیت جسے جانتے سبھی ہیں ،مگر سمجھتا کوئی کوئی ہے، پیش کیا اور نتیجتہَ اس سے مادے او رقوت کے مابین پائی جانے والی اصولی مطابقت کو اخذ کیا۔ عظیم سائنس دان روتھر فورڈ نے ایٹم کی ہیئت ترکیبی کو متصوریوں کیا کہ ایٹم میں ایک نیوکلس (مرکزی دل ) ہوتا ہے اور الیکٹران اس مرکزی دل کے گردا گرد اس طرح گردش میں رہتے ہیں جس طرح کہ سیارے سورج کے گرد۔ ۱۹۱۹ ء میں روتھر فورڈ (RutherFord)نے ایک عنصر نائٹروجن کا الفا پارٹیکلز کی بمبارڈمنٹ سے پارہ پارہ کر دیا ۔ ۱۹۳۲ ء میں شیڈوک نے روتھر فورڈ لیبارٹری میں نیوٹران دریافت کر لیا ۔اسی سال اور اسی لیبارٹری میں قراقرافٹ اور والٹن نے لیتھیم کو پروٹانز سے بمبارڈ کرکے نیوکلری قلب ماہیت کی پہلی کامیاب کوشش کی اور اس طرح کسی دوسری دھات کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن ہو گیا ۔تاہم عملا یہ سودا مہنگا پڑتا ہے اس لئے اس کی آرزو مت کیجئے اس کے بعد انکشافات کا ایک سریع سلسلہ شروع ہو گیا۔
یورانیم فژن کا عمل دو جرمن سائنس دانوں ہاہن اور سٹراسمین نے ۹۳۸ا ء میں دریافت کیا ۔ اس مہتم بالشان دریافت کی غیر معمولی اہمیت کے اندازے کے پیش نظر ہر طرف ایٹمی نیوکلس کی تحقیق و جستجو کی ایک مہم چل گئی ۔ ۱۹۴۰ ء تک اس مضمون پر ایک سو سے زائد مقالے منصہ شہود پر آ گئے لیکن اس کے بعد فوری طور پر ہر چیز زیر زمین چلی گئی اور جنگ عظیم کے خاتمے تک اس ضمن میں کوئی لٹریچر سامنے نہیں آ یا البتہ یہودی سائنس دانوں کے ذہن اور امریکہ کی دولت نے مل کر بالآخر ایٹم بم کی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دے کر عالمی تباہی کا مژدہ سنا ہی ڈالا ۔قابل غور امر یہ ہے کہ ایٹم بم کی تیاری کی راہیں کھولنے والی اکثر تھیوریاں وسطی یورپ نے مہیا کیں اور ان میں سے اکثر یہودی ذہن کی ریشہ دوانیاں ہیں لیکن ایٹم بم کی تصنیف کا سہرا امریکہ کے سر ہے ۔ ۲، اگست ۱۹۳۹ء کو البرٹ آئن سٹائن نے اپنا شہرت یافتہ خط پریزیڈنٹ روزویلٹ کو لکھا۔ اس خط میں اس نے پریزیڈنٹ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ فرمی (Fermi)اور زلرڈ (Zillard)کی ایٹمی تحقیق کی روشنی میں یورانیم فژن کے عمل سے عام بموں کے مقابلے میں دس لاکھ گنا طاقت ور بم تیار کرنے کے امکان نظر آتے ہیں ۔ اس قسم کا ایک بم اگر کشتی میں لاد کر کسی بندرگاہ میں پھاڑ دیا جائے تو پوری کی پوری بندرگاہ اور اس کے ساتھ کچھ ارد گرد کا علاقہ بھی تہس نہس کر ڈالے ۔امریکی حکومت نے فوری طور پر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کر لیا۔ اس فوری کاروائی کے پیچھے یہ خدشہ بھی کارفرما تھا کہ شائید جرمنی پہلے ہی اس میدان میں سرگرم عمل ہے اور اگر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تو پھر اتحادیوں کی تباہی میں کسی شائبے کی گنجائش کا امکان نہیں۔
فژن چین ری ایکشن کی تاریخ ساز کامیابی کا سہرا ایک اطالوی سائنس دان فرمی نامی کے لئے مقدر تھا ۔جو ۲ دسمبر ۱۹۴۲ ء کو اس کے سر بندھا اور اس کے بعد ایٹم بم کی ترکیب قابل عمل صورت میں نمودار ہو گئی مگر افسوس کہ بے چارا فرمی جلد ہی دوسری دنیا کو سدھارا ۔وہ ایٹمی تابکاری کا شکار ہو چکا تھا ۔ ہم نہیں جانتے مگر ہو سکتا ہے کہ اگلی دنیا میں اس کی ملاقات ہیروشیما کے آنجہانیوں سے ہوئی ہو ۔معاملہ نے کیا شکل اختیار کی ہو گی ،ہم یہ بھی نہیں جانتے البتہ شگاگو یونیورسٹی امریکہ کے باہر فرمی کی کامیابی کا جو بورڈ لگا ہے وہ ایٹمی قیامت تک دنیا میں موجود رہے گا ۔کتبے کی عبارت ملاحظہ ہو ( مورخہ ۲ اگست ۱۹۴۲ ء کو یہاں انسان نے اولین فژن چین ری ایکشن کے حصول میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح پہلی بار دنیا میں ایٹمی توانائی کی اختیاری افادیت کی ابتدا ہوئی)۔
فورا ہی نیولاس الامس لیبارٹری کے سپرد ایٹم بم کی تیاری کا فریضہ اوپن ہیمر( ایک یہودی سائنس دان کی نگرانی میں شروع کر دیا گیا۔ ۱۹۴۵ ء کے وسط تک تین بم تیار ہو گئے ۔پہلا بم ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو الاموگورڈو سینڈز میں ٹیسٹ کی غرض سے چلایا گیااور بقایا دونوں بم ہیروشیما اور ناگاساکی کے باشیوں کو تاریخ کے پہلے ایٹمی نذرانے کے طور پر عطا کر دیئے گئے ۔انسانی ہمدردی کے اس عدیم النظیر مظاہرے سے متاثر ہو کر دونوں شہر آنسوؤں میں ڈھل کر سوئے فلک پرواز کر گئے اور وہاں ستاروں کی دنیا میں جگمگانے لگے۔
گالی کا جواب گالی اور اینٹ کا جواب پتھر کے قدیم اصول کے عین مطابق روس نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ اگست ۱۹۴۹ ء یعنی چار سال کے بعدبے چارے امریکہ کی ایٹمی اجارہ داری کے شیشے کو پارہ پارہ کر دیا ۔تاہم امریکہ آخر امریکہ تھا ۔ ۳۱ جنوری ۱۹۵۰ ء کو پریذیڈنٹ ٹرومین نے امریکی سائنس دانوں کو ہائیڈروجن بم بنانے کی ہدایات جاری کر دیں ۔سائنس دانوں کے لئے یہ لمحہ بے شک بے حد صبر آزما تھا۔ وہ ہیروشیما دیکھ چکے تھے ان میں سے اکثر کا ضمیر ملامت کر رہا تھا ۔یہودی سائنس دان اوپن ہیمر جس کی نگرانی میں ہیروشیمائی ایٹم بم تیار ہوئے تھے ۔اب مزید آگے بڑھنے پر آمادہ نظر نہ آتا تھالہذا اس پر الزامات عائد کئے گئے مقدمہ چلا اور بالآخر اس کے جملہ اعزازات کے چھیننے کے علاوہ اسے ملازمت سے بھی سبکدوش کر دیا گیامگر ایک دوسرا لنگڑا سائنس دان ایڈورد ٹیلر (AdwardTaylor)تندہی سے آگے بڑھا اور نومبر ۱۹۵۲ ء میں ہائیڈروجن بم بنا کے ہی دم لیا ۔پھر کیا تھا روس کا دیو جوابی کاروائی کے لئے حرکت میں آ گیا اور ۱۹۵۳ ء میں ہائیڈروجن بم بنا کر امریکی رد عمل کی انتظار میں بیٹھ گیا۔
ایٹمی طاقتیں اپنی قوت اور اپنے کمالات پر نازان تھیں اور دل ہی دل میں اترائی پھرتی تھیں کہ ایک ناگہانی واقعے نے ایٹمی طاقتوں سمیت روئے زمین کے گوشے گوشے میں صف ماتم بچھا دی ۔مارچ۱۹۵۴ء میں امریکہ نے بحرالکاہل میں بیکنی اٹول(BikiniAtol) کے مقام پر پندرہ میگاٹن ڈیڑھ کلو ٹن کا ایک جہاں لرز ایٹمی دھماکہ کرکے بحرالکاہل کی ساری کاہلی کو کافور کر دیا ۔اتفاق سے اس مقام سے نوے میل دور جاپانیوں کی ایک مچھلیاں پکڑنے والی کشتی فکوریومارو (خوش نصیب اژدھا ) نامی لنگر انداز تھی ۔طلوع آفتاب سے کچھ پہلے جو ایک ماہی گیر کشتی کے عرشے پر آیاتو چلایا ۔دیکھو دیکھو ۔سورج نکل آیا ۔کشتی کا کپتان اوپر آیا ۔تو حیران رہ گیا ۔سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو رہا تھا مگر رفتہ رفتہ ہیروشیما کے زخم خوردہ جاپانیوں کا خیال ایٹم بم کی طرف منتقل ہوا تو تیئیس کے تیئس ماہی گیر ایک عجیب ہراسانی کے عالم میں پکاڈن پکاڈن پکاڈن ایٹم بم ، ایٹم بم ، ایٹم بم چلاتے ہوئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ وفقے کے بعد سفید پاؤڈر کشتی پر تہہ بہ تہہ گرنا شروع ہو گیا۔ ماہی گیروں کے بدن تپنے لگے ۔آنکھیں انگارہ ہو گئیں ۔وہ پانی کے نلکوں کے نیچے بیٹھ گئے مگر فی الفور رخت سفر باندھا ۔لنگر اٹھایا اور یہ جا وہ جا،تین روز دن رات کشتی کو بھگاتے ہوئے دو ہزار میل کے فاصلے پر جاپانی بندرگاہ پر پہنچے جہاں ماہی گیر ہسپتال میں ڈال دئے گئے ،بدقسمتی سے وہ مچھلیاں جو وہ پکڑ کر لائے تھے ،منڈیوں میں پہنچ چکی تھیں،ایک ایک مچھلی کو تلاش کیا گیاکیونکہ وہ سب تابکاری کے اثرات سے متاثر ہو چکی تھیں ۔دنیا بھر سے آنے والے سائنس دانوں کا ایک میلہ سا لگ گیا ۔ماہی گیر سخت جدوجہد کے بعد موت سے بچا لئے گئے مگر بے چارہ وائرلیس اوپریٹر جانبر نہ ہو سکااور چھ ماہ کی طویل علالت کے بعد راہی ملک عدم ہوااور اس طرح وہ راز جس کے اخفا میں انسانوں نے کوئی فروگزاشت نہ کی ۔قدرت نے طشت ازبام کر دیااور قدرت کے ڈھنڈورچی نے تمام عالم انسانیت میں منادی کر ا دی کہ لوگو ایٹم بم کی زد سے نہ دوست محفوط ہے نہ دشمن اور نہ کوئی غیر جانب دار ۔ایٹم بم کا دیو تمہارے دشمن کا گھر خاکستر کرنے کے بعد خود تمہارے گھر کی جانب لوٹ سکتا ہے ۔فژن بم کی تابکاری کا طوفان ایک لاکھ فٹ کی بلندی پر پہنچ کر ہوا کے دوش پر سوار ہو جاتا ہے اور مصنوعی سیاروں کی طرح دس برس تک ذرے زمین پر اترتے ہیں اور ہر شے کو تابکار کر دیتے ہیں اور پھر انسانیت لولے لنگڑے اور اندھے اور کو ڑھی عفریتوں کی ایک جماعت بن جاتی ہے اور اس عذاب میں ایٹمی اور غیر ایٹمی سار ی طاقتیں شامل ہیں ۔
علامہ یو سف جبریلؒ
یوسف جبریل ؒ فاؤنڈیشن پاکستان قائداعظم سٹریٹ نواب آبادواہ کینٹ ضلع راولپنڈی
allamayousuf.net.
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
[[زمرہ:1945ء کی متعارفات]]