"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستگی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
(ٹیگ: القاب)
سطر 9:
 
== جہاد کا اصطلاحی معنی ==
[[شریعت]] اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘ہے۔‘‘جہاد کے عناصر ترکیبی اوراخلاق کی اہمیت
تحریرعلامہ محمد یوسف جبریلؒ
صلح اور امن و امان اگرچہ بہترین چیزیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شر پسند افراد اور شر پسند قومیں صلح جو افراد اور صلح جو قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے ۔ صلح کے حصول کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ایک دوسرے کے آگے جھک جائے اور اس طرح فساد کا خطرہ ٹل جائے دوسرا یہ کہ صلح جو فتنہ پسند کا مقابلہ کرے ۔ پہلی صورت میں فساد کا خطرہ ٹل جانا ایک مشکل امر ہے جیسا کہ دنیا کے طور طریقے بتا رہے ہیں دوسری صورت مقابلے کی ہے لیکن مقابلہ کرنے والوں میں بھی اگر ایک فریق ظاہرا کمزور اور دوسرا طاقت ور ہو تو جنگ کے ٹل جانے کا امکان بہت ہی کم ہے ۔ طاقت ور کمزور کی کمزوری کے پیش نظر جنگ برپا کرنے میں جری ہو گا اس لئے چاہیے کہ حتی الوسع بڑھ کر جنگی تیاری کی جائے تاکہ طاقت ور کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا ۔ ’’ اے مسلمانو ! ان سے مقابلہ کے لئے جس قدر بھی تم سے ہو سکے قوت کے سامان اور پلے ہوئے مضبوط گھوڑے تیار رکھو تاکہ تمہارا رعب چھایا رہے ۔ تمہیں کیا خبر تمہارے اور اللہ کے دشمن کہاں کہاں ہیں۔ ( الانفال ۶۰ )اگر اللہ چاہے تو کافروں کو چشم زدن میں عذاب الٰہی سے تباہ کرکے رکھ دے لیکن جدال و قتال کا سلسلہ اس لئے مقرر کیا کہ مسلمانوں کو آزمائے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے اور قربانیاں دینے کا موقع بہم پہنچائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’کہ جنگ کے موقعے پر کافروں کو قتل کرنے سے باک نہ کرو ، ان کے بڑے بڑے شریروں کو کیفر کردار تک پہنچا دو اور ان کے جتھے توڑ دو تاکہ ان کا غرور ٹوٹے اور شاید ایمان کی طرف متوجہ ہوں ۔تمہاری قربانی ضائع نہ ہونے دی جائے گی بلکہ تمہیں طرح طرح کے انعاموں سے نوازا جائے گا لیکن جب کفار تمہارے قیدی ہو جائیں تو ان میں سے فقط ان آدمیوں کو قتل کرو جن کا جرم ایسا ہو کہ قابل معافی نہ ہو سکے یا جن کا زندہ چھوڑ دینا مزید فتنے کا باعث ہو ورنہ قیدیوں کو قتل مت کرو بلکہ یاتو انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیرفدیہ لئے محض احسان کرکے آزاد کر دو اور اپنے اخلاق کریمانہ سے ان کو متاثر کرو شاید کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو سمجھیں اور کفر و شرک کو چھوڑ کر دین حق کی طرف مائل ہوں اور یہی اسلامی جہاد کا اصلی مقصود ہے‘‘۔
اپنے نفس کی اصلاح جہاد سے مقدم ہے اور یہ تقدیم اس لئے ہے کہ جب تک آدمی آدمی نہ بن جائے اور اپنی تمام خواہشات اور شہوات کو مغلوب کرکے اللہ کا نہ ہو رہے ۔ اس وقت تک وہ نہ تو جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طرح سے جہاد ہی کر سکتا ہے ۔اصلاح نفس ہو جائے گی تو انسان جہاد میں نہ تو مال و دولت یا لوٹ مار کے لالچ میں نکلے گا نہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھا کر شہرت حاصل کرنے کی غرض سے بلکہ وہ ٹھیک اپنے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اس کے دین کی سربلندی کی غرض سے تلوار اٹھائے گا ۔ اس طرح اگر شہید ہو گا تو اللہ کے ہاں شہادت کا مرتبہ پائے گا اور جو غازی ہو گا تو خدا کی زمین کو ظلم وستم اور کفر و باطل سے پاک کرنے کی سعی کرے گا نیز جنگ میں جو مشکلات اور مصائب ہوتے ہیں انہیں صبر و تحمل سے برداشت کرے گا اور موت کا خوف دل میں نہ رکھے گا اور کمانڈر کا حکم د ل و جان سے مانے گا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے گا ۔ اصلاح نفس سے عاری آدمی ان سب باتوں کے خلاف کرے گا اور خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے وبال جان بن کر اجتماعی شکست کا باعث ہو گا۔
جنگ کا فیصلہ کرنے میں جن عوامل کا قطعی ہاتھ ہے مثلا ڈسپلن ، تدبیر، شجاعت ،استقامت اور جنگی مہارت۔ یہ تمام کے تمام اخلاقی قوت کا نتیجہ ہیں تعداد اور اسلحہ اگرچہ ظاہرا دو بڑے عنصر نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے اور جنگی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک یہ دونوں عنصر کبھی بھی فیصلہ کن عنصر ثابت نہیں ہوئے ۔ قرون اولیٰ کے مسلما نوں کو جب یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ غنیم ایک بہت بڑا لشکر جرار اور بے پناہ ساز و سامان اور اسلحہ لے کے آ رہا ہے تو انہوں نے نہایت اطمینان سے کہہ دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور واقعی اللہ ہی کافی ثابت ہوا ۔ مٹھی بھر مسلمان نہایت بے سروسامانی کی حالت میں جہاں بھی گئے وہاں فتح و کامیابی نے ان کے قدم چومے اور دشمن نے اپنا تمام ساز و ساما ن چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ اسلئے ہر وہ فوج جو فتح و آبرو مندی کو اپنا شعار بنانا چاہے وہ اخلاقی قوتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی جائے اور اخلاقی قوتوں کا سرچشمہ دین متین ہے جس نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے اپنایا اس نے ایک بہت بڑے اور مضبوط قلعے میں پناہ لی ۔
 
علامہ محمد یوسف جبریلؒ ،
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
،قائد اعظم سٹریٹ ،نواب آباد، واہ چھاؤنی، ضلع راولپنڈی، پاکستان
www.oqasa.org
 
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
== جہاد کی اقسام ==