"فتح اندلس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ - انگریزی سے بین الوکی روابط درآمد کیے
clean up, Replaced: Category → زمرہ (2), → (10),, typos fixed: غالبا → غالباً (2) using AWB
سطر 2:
 
فتح سندھ کی طرح اس حسین و جمیل خطہ زمین پر بھی ولید بن عبدالملک کے زمانے میں قبضہ کیا گیا ۔ اس فتح کا سہرا طارق بن زیاد اور موسٰی بن نصیر کے سر ہے۔
 
 
= اسباب =
 
 
== سپین کے معاشرتی حالات ==
 
جب کوئی معاشرہ گل سڑ جاتا ہے اس کے عوام بدحال ، درمیانہ طبقہ پریشان حال اور اونچا طبقہ ظالم و عیاش ہو جاتا ہے تو قانون فطرت ہے کہ اس معاشرے میں انقلاب لانے کے لیے نچلا طبقہ باغی ہو جاتا ہے۔ یا اس پر کوئی بیرونی قوم مسلط ہوجاتی ہے۔ آٹھویں صدی کے آغاز میں اندلس کی بھی یہی حالت تھی ۔ غلام تو تھے ہی غلام ، مزارعین کی حالت بھی ان سے کسی طرح بہتر نہ تھی ۔ زمین پر پوری محنت کے باوجود انہیں سکھ کی روٹی نصیب نہ تھی اور نہ ہی زمین ان کی ضروریات پوری کرتی تھی۔ ان کی حالت بعض معاملات میں غلاموں سے بھی بدتر تھی ۔ وہ اپنے بچوں کی شادی بھی امراء اور زمینداروں سے پوچھے بغیر نہ کر سکتے تھے اور اگر جاگیر کے کسان کی شادی دوسری جاگیر کے کسی مزارع کی لڑکی سے ہو جائے تو اولاد دونوں جاگیرداروں میں تقسیم کر دی جاتی ۔ درمیانہ طبقہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اور وہ معاشی طور پر دیوالیہ اور ذہنی طور پر پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ اونچا طبقہ جس پر ٹیکس معاف تھے اور وہ زمین کا مالک تھا دو قسم کے لوگوں پر مشتمل تھا ۔ فوجی امراء اور پادری ، عموماً معیاری زندگی اور مزارعین پر ظلم کرنے کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ عیس و عشرت اور بداخلاقی میں بھی مذہبی امراء فوجی امراء سے کسی طرح کم نہ تھے۔ اس طرح معاشرے پر کسی بیرونی قوت کا حملہ کرنا قانون فطرت کے عین مطابق ہے اور ہر حملہ آور سمجھتا ہے کہ ایسے ملک کو فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ نیز مسلمانوں کا مقصد زندگی بھی اسی چیز کا متقاضی ہے کہ اللہ کے بندوں کو خدا کے علاوہ دوسروں کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔
 
 
== سیاسی انتشار ==
 
گوتھوں کی بادشاہت انتخابی تھی۔ بادشاہت کے امیدواروں کی تعداد کافی ہوتی تھی۔ اور بادشاہ کے انتخاب کے بعد بھی باہمی رنجشیں برقرار تھیں۔ اسلامی حملہ سے چند سال سپین پر ویٹزا WITIZA کی حکومت تھی ۔ جو یہودیوں کا بہی خواہ ، غریبوں کا معاون اور شرافت کا حامی تھا۔ اس وجہ سے فوجی امراء نے اس کے خلاف بغاوت کرکے فوج کے زور سے راڈرک RODERICK کو بادشاہ بنا ڈالا اور ویٹزا کو قتل کر دیا۔ لیکن بہت سے امراء اور ویٹزا کے رشتہ دار اس نئے بادشاہ کے مخالف تھے اور اس کا تختہ الٹنے کے کسی بھی منصوبے میں تعاون کے لیے تیار تھے ۔ مسلمانوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
 
 
 
== بربروں سے قدیم چپقلش ==
 
بربر قوم حریت پسند اور جنگ جو تھی۔ اس قوم نے بڑی مشکل سے عربوں کی اطاعت قبول کی تھی۔ غالباًغالباًً اسلامی فتوھات میں سب سے زیادہ مشکل شمالی افریقہ ہی کی فتوحات تھیں۔ وہ بار بار مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے رہتے تھے۔وہ اب مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لیے عرب گورنر موسٰی بن نصیر نے ان کی جنگی صلاحیتوں کو کسی دوسری طرف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ تاکہ ان کو مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا موقع نہ مل سکے۔ اس مقصد کے لیے اندلس کی فتح بہترین منصوبہ تھا۔ کیونکہ قدیم زمانہ سے ہی بربروں اور اندلس کے درمیان جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ بالعموم بربروں کا حملہ سبتہCEUTAپر ہوتا تھا۔ جسے اندلس حکومت نے اب بہت مضبوط بنا ڈالا تھا۔
 
 
== [[کاونٹ جولین]] کی دعوت ==
سطر 28 ⟵ 22:
 
’’اس مرتبہ میں ایسے باز بھیجوں گا کہ آپ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھیے ہوں گے۔‘‘
 
 
= واقعات =
 
کاونٹ جولین دارلحکومت سے واپس لوٹا تو خود موسی کے پاس گیا۔ موسٰی نے اس کی عزت و تکریم کی ۔ جولین نے سپین کی زرخیزی کے حالات بتائے اور اس پرحملہ کرنے کی ترغیب دلائی ۔ موسٰی نے سوچ بچار کے لیے کچھ وقت طلب کیا اور اس دوران میں خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اجازت طلب کی۔ اس کے بعد کاونٹ جولین کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ جولین سابقہ بادشاہ ویٹزا کا قریبی رشتہ دار غالباًغالباًً داماد تھا ۔ اس لیےاس نے ویٹزا کے دوسرے رشتہ داروں کو بھی معاہدہ میں شامل کر لیا اور اندلس کی فتح کی سکیم تیار کر لی گئی۔
 
کاونٹ جولین دارلحکومت سے واپس لوٹا تو خود موسی کے پاس گیا۔ موسٰی نے اس کی عزت و تکریم کی ۔ جولین نے سپین کی زرخیزی کے حالات بتائے اور اس پرحملہ کرنے کی ترغیب دلائی ۔ موسٰی نے سوچ بچار کے لیے کچھ وقت طلب کیا اور اس دوران میں خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اجازت طلب کی۔ اس کے بعد کاونٹ جولین کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ جولین سابقہ بادشاہ ویٹزا کا قریبی رشتہ دار غالباً داماد تھا ۔ اس لیےاس نے ویٹزا کے دوسرے رشتہ داروں کو بھی معاہدہ میں شامل کر لیا اور اندلس کی فتح کی سکیم تیار کر لی گئی۔
 
 
== طریف کی مہم ==
 
خلیفہ ولید نے احتیاط سے اقدام کرنے کی ہدایت کی تھی اس لیے موسٰی بن نصیر نے پہلے صرف پانچ سو سواروں پر مشتمل ایک چھاپہ مار دستہ تیار کیا اور اپنے ایک بربر غلام طریف کو اس کا سربراہ بنا کرسپین کے ساحل پر چھاپہ مارنے کے لیے روانہ کیا یہ دستہ جولائی 710ھ میں الخضرا ALGECIRAS پر حملہ آور ہوا اور فتح مند اور کامران واپس لوٹا؛ اس حملہ سے سپین کی داخلی کمزوری فوجیوں کی بزدلی اور نظام عسکری کی خامیوں کا پتہ چل گیا اور کاونٹ جولین کے خلوص کی بھی تصدیق ہوگئی۔
 
 
== طارق بن زیاد کا حملہ ==
 
[[موسی بن نصیر]] نے اس کے بعد 7 ہزار سواروں پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا جس کی قیادت اپنے آزاد کردہ غلام [[طارق بن زیاد]] کے حوالے کی۔ یہ لشکر 9 جولائی 711ء کو اس جگہ پر پہنچا جسے جبل الطارق کہا جاتا ہے۔ کاونٹ جولین اس کے ساتھ تھا۔ اندلس پہنچنے کے لیے بحری بیڑہ اسی نے مہیا کیا تھا۔ طارق نے ساحل اندلس پر اترتے ہی ان جہازوں کو آگ لگا دی جن پر سوار ہو کر وہ شمالی افریقہ سے یہاں آئے تھے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب مرنا جینا اس سرزمین میں ہے اور واپس بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
 
 
 
== [[تھیوڈ میر]] کو شکست ==
 
طارق کا پہلا مقابلہ تھیوڈ میر THEUDMIR والئی مرسیہ MERCIA کے ساتھ ہوا تھیوڈ میر راڈرک کا تجربہ کار جرنیل تھا لیکن وہ شکست کھا کر اس بری طرح سے بدحواس ہوا کہ اس نے بادشاہ کے پاس پہنچ کر اطلاع دی وہ یہ تھی ۔ ’’ہمارے ملک پر ایسے لوگوں نے حملہ کیا ہے جن کا وطن معلوم ہے نہ اصلیت کہ کہاں سے آئے ہیں زمین سے نکلے یا آسمان سے اترے۔‘‘
 
طارق کا پہلا مقابلہ تھیوڈ میر THEUDMIR والئی مرسیہ MERCIA کے ساتھ ہوا تھیوڈ میر راڈرک کا تجربہ کار جرنیل تھا لیکن وہ شکست کھا کر اس بری طرح سے بدحواس ہوا کہ اس نے بادشاہ کے پاس پہنچ کر اطلاع دی وہ یہ تھی ۔ ’’ہمارے ملک پر ایسے لوگوں نے حملہ کیا ہے جن کا وطن معلوم ہے نہ اصلیت کہ کہاں سے آئے ہیں زمین سے نکلے یا آسمان سے اترے۔‘‘
 
 
== [[راڈرک]] کو شکست ==
 
راڈرک نے اس اطلاع پر شمالی اسپین کی جنگوں کو ملتوی کر دیا ۔ فوراً دارلحکومت پہنچا اور ہر طرف ہرکارے دوڑائے گئے۔ جاگیر داروں اور امراء کو فوجیں لے کر پہنچنے کا حکم دیا۔ پادریوں نے مذہبی جنگ کا وعظ کیا اور ایک لاکھ لشکر اکھٹا ہو گیا طارق کو ان سب تیاریوں کا علم ہوا اس نے موسیٰ بن نصیر کے پاس ہرکارے بھیجے اور اس نے مزید پانچ ہزار فوج بھیج دی۔ اس طرح سے ایک لاکھ کے اندلسی لشکر کے مقابلے میں12 ہزار مجاہدین کی ایک جماعت تیار ہوگئی ۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو عجیب منظر تھا ایک طرف ایک لاکھ ٹڈی دل جو ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔ اور دوسری طرف صرف بارہ ہزار انسان جو اپنے وطن سے دور کمک و رسد سے مایوس تھے اور جن کے پاس دشمن کی بہ نسبت اسلحہ بھی بہت کم تھا۔ طارق بن زیاد نے اپنے ساتھیوں کے چہروں پر اس صورت حال کا ردعمل پڑھا تو اس نے ان کو خطاب کیا۔
 
’’اے جواں مردو! جنگ کے میدان سے اب مفر کی کوئی صورت نہیں ہے۔ دشمن تمہارے سامنے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے ۔ صبر اور مستقل مزاجی کے علاوہ اب تمہارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ تمہارے دشمن کے پاس فوج بھی ہے اور اسلحہ جنگ بھی ۔ تمہارے پاس بجز تمہاری تلواروں کے اور کچھ بھی نہیں ۔اگر تم اپنی عزت و ناموس بچاؤ دشمن جو تمہارا مقابلہ کرنے کے لیے بڑھا آرہا ہے اس کے دانت کھٹے کر دو۔ اس کی قوت کو ختم کردو۔ میں نے تم کو ایسے امر کے لیے نہیں پکارا جس سے میں گریز کروں ۔ میں نے تم کو ایسی زمین پرلڑنے کے لیے آمادہ نہیں کیا جہاں میں خود لڑائی نہ کروں۔ اگر تم نے ذرا بھی ہمت ہمت سے کام لیا تو اس ملک کی دولت و حشمت تمہارے جوتوں کی خاک ہوگی۔ تم نے اگر یاہں کے شہسواروں سے نپٹ لیا تو خدا کا دین رسول اللہ کا حکم یہاں جاری و ساری ہو جائے گا۔ یہ جان لو جدھر میں تم لوگوں کو بلا رہا ہوں ادھر جانے والا پہلا شخص میں ہوں۔ جب فوجیں ٹکرائیں گی تو پہلی تلوار میری ہوگی جو اٹھے گی۔ اگر میں مارا جاؤں تو تم لوگ عاقل و دانا ہو کر کسی دوسرے کا انتخاب کر لینا مگر خدا کی راہ میں جان دینے سے منہ نہ موڑنا اور اس وقت تک دم نہ لینا جب تک یہ جزیرہ فتح نہ ہو جائے ۔ ‘‘
 
 
کئی روز مسلسل راڈرک کا لشکر داد عیش دیتا رہا او ر مومنین سربسجود فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے رہے۔ بالاخر طبل جنگ بجے اور فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ ایک ہفتہ تک صبح سے شام تک جنگ ہوئی اور شام کو دونوں لشکر ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ۔ اسلامی لشکر بہت بہادری سے لڑ رہا تھا۔ لیکن اپنے سے آٹھ گنا لشکر کو جسے تمام سہولتیں حاصل ہوں شکست دینا اتنا آسان نہ تھا۔ آٹھویں روز طارق نے بھرپور حملہ کیا ۔ سابق بادشاہ ویٹزا کے رشتہ دار راڈرک کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ راڈرک کی فوج کا دایاں و بایاں بازو انہی کے کمان میں تھا۔ قلب کی وہ خود کمان کر رہا تھا۔ طارق نے پورا زور قلب ہی پر لگا دیا اور عرب و بربر اس بہادری سے لڑے کی عیسائی لشکر بھاگ کھڑا ہوا۔ خود راڈرک بھی میدان سے بھاگ نکلا اور کہا جاتا ہے کہ دریا عبور کرنے کی کوشش کرتا ہوا لہروں کی نذر ہو گیا۔
 
 
 
== بلاد اندلس کی فتح ==
 
اندلس کی مرکزی حکومت کی شکست کے بعد طارق بن زیاد نے اپنی فوج چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے مختلف شہروں کی طرف روانہ کی۔ اور کاونٹ جولین کی راہنمائی کے مطابق ملک کے طول و عرض میں اسلامی فوج کے دستے فتوحات حاصل کرنے لگے۔ مسلمانوں نے پہلا حملہ اسیجہ ECIJA پر کیا جہاں گاڈ ایسٹ کی شکست خوردہ فوج جمع ہو رہی تھی ۔ اللہ تعالٰی نے یہاں بھی مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور قرطبہ CORDOVA کی فتح کا سہرا مغیث رومی کے سر بندھا۔ مالقہ MALAQA اور غرناطہ GRANADA بھی فتح ہو گئے دارلحکومت طلیطلہ TOLEDO کے باشندے مسلمانوں کی آمد کی خبر سن کر شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ۔
 
فتح کی بشارت ملتے ہی موسی بن نصیر اندلس روانہ ہو گئے ۔ موسی نے فتح اندلس کی تکمیل کے لیے قرمونہ CORMONA اشبیلیہ SEVILLE اور ماروہ MARIDA کو فتح کیا اور اس کے بعد دارلحکومت طلیطلہ میں طارق کے ساتھ جا ملے سپین کے شمالی حصے کی تسخیر دونوں کی متحدہ فوجوں نے کی اور سرقونہ SARACONA اراگون ARAGON اور برشلونہ BARGELONA کے علاقے فتح ہوئے۔
 
فتح کی بشارت ملتے ہی موسی بن نصیر اندلس روانہ ہو گئے ۔ موسی نے فتح اندلس کی تکمیل کے لیے قرمونہ CORMONA اشبیلیہ SEVILLE اور ماروہ MARIDA کو فتح کیا اور اس کے بعد دارلحکومت طلیطلہ میں طارق کے ساتھ جا ملے سپین کے شمالی حصے کی تسخیر دونوں کی متحدہ فوجوں نے کی اور سرقونہ SARACONA اراگون ARAGON اور برشلونہ BARGELONA کے علاقے فتح ہوئے۔
 
== موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد کی واپسی ==
خلیفہ ولید بیمار پڑ گیا اس نے موسی بن نصیر کو واپسی کا حکم دیا چنانچہ موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد 95ھ میں بے پناہ مال غنیمت کے ساتھ پایہ تخت دمشق روانہ ہوئے ۔ واپسی پر اس نےاپنے بیٹوں عبدالعزیز ، عبداللہ ، عبدالملک کو علی الترتیب سپین ، شمالی افریقہ اور مراکش کا والی مقرر کیا۔ موسی کی اچانک واپسی کی بنا پر مسلمانوں کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا خلیفہ ولید کے مرنے کے بعد جانشین خلیفہ سلیمان نے محض اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر بجائے موسی کی عزت و توقیر اور منصب میں اضافہ کے جیل میں ڈال دیا۔ بعد میں اگرچہ ایک سردار کی سفارش کی بنا پر اس کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا تاوان جرمانہ کی صورت میں عائد کر دیا اس قدر بڑی رقم موسی ادا نہ کر سکا اور اسلام کے اس نامور فرزند اور عظیم جرنیل اور فاتح نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام انتہائی کس مپرسی اور تنگ دستی میں گزارے
 
 
[[Categoryزمرہ:تاریخ اسلام]]
[[Categoryزمرہ:بنو امیہ]]
 
[[ar:الفتح الإسلامي للأندلس]]