"میر خلیل الرحمٰن" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م 77.104.83.4 (تبادلۂ خیال) کی ترامیم واپس Naqvibot کی گذشتہ تدوین کی جانب۔
سطر 27:
صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میر خلیل الرحمٰن نے آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خبر پر کہا تھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر قیام پاکستان کا اعلان تھا اور میری زندگی کی سب سے بُری خبر [[جنگ آزادی بنگلہ دیش|سقوط مشرقی پاکستان]] تھا، اس خبر نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا اور دل ڈوبنے لگا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے نہ اس وقت میرے پاس الفاظ تھے اور نہ اب ہیں۔
 
==میر خلیل الرحمٰن نقادوں کی نظر میں== میر خلیل الرحمن جنسی معاملات میں خاصی دلچسپی رکهتے تهے اسی لئے جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا
تنقید کرنے والوں کے مطابق میر صاحب نے پاکستان میں زرد صحافت کو فروغ دیا۔ وہ ہر حکمران کے منظور نظر رہے اورکبھی بھی عوام کی ترجمانی نہیں کی۔ ان کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ جنگ اخبار کی پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوی پالیسی نہیں۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ صحافت کو کاروبار بنانے کا سہرا بھی میر صاحب کے سر جاتا ہے جس نے پاکستانی صحافت کو آج تک اصولوں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ جنگ اخبار نے کبھی بھی اصولوں کی خاطر قربانیاں نہیں دیں۔ جبکہ دیگر اخبارات پابندیوں کی زد میں آتے رہے۔ یہ مضمون جامعہ کراچی مغربی پاکستان کے تدریسی شعبہ 'ابلاغیات‘ کے 'جرنلسٹس‘ کے 'جنگ نمبر‘ کے لئے اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد مرحوم شمیم احمد نے تحریر کیا تھا جو بعض وجوہات کی بناءپر شائع نہ ہو سکا تھا۔ مجلہ 'ساحل‘ کراچی نے اس مضمون کو جولائی 2006ءکی اشاعت میں شائع کیا تھا۔
معاشرے جب عروج اور ارتفاع کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو اس کی وجہ وہ استعداد ہوتی ہے جو انہوں نے ماضی میں حاصل کی ہوتی ہے۔ اِسی طرح زوال اور پستی سے پہلے، فکر اور خیال کے سوتے خشک ہوتے ہیں۔ اعلیٰ قدروں سے پہلو تہی، نفس پرستی اور بے عملی زوال پذیر معاشرے کی نمایاں صفات ہوتی ہیں ہم اپنے وجدان سے اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ عروج وزوال فطری یا طبعی اصول کے تابع ہیں مگر کوئی معاشرہ کب دو میں سے کسی ایک راہ پر چل پڑتا ہے۔ انسان کی دانش ابھی اسے دریافت نہیں کر پائی ہے۔ ہاں زوال کے دوران میں اگر معاشرے میں اپنے تصور حیات سے کسی نہ کسی سطح پر حقیقی تعلق باقی رہتا ہے تو پھر ایسے معاشرے میں نسبتاً جلد وہ قوت پیدا کی جا سکتی ہے جو عروج اور ارتفاع کی سمت معاشرے کو لے جاتی ہے۔
سطر 63:
خدا جانے مسلم اُمہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، اسپین ہو یا سمرقند بخارا ہو یا بغداد یا پھر اپنا پیارا پاکستان، سازشیں ہمیشہ ان کے اپنے وطن میں پنپتی ہیں اور ملک گنوانے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنوں کا کیا کرایا ہے۔
اگر 'جنگ‘ برسر جنگ نہ ہوتا تو ایک متعین ہدف کو پالینے کے لئے متحرک ہونے والی قوم اتنی جلد گم گشتہ راہ نہ ہوتی
 
==عریانی اور فحاشی پهلانے میں جنگ گروپ کا کردار==
میر خلیل الرحمن جنسی معاملات میں خاصی دلچسپی رکهتے تهے اسی لئے جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا۔