Manzoor khan 1
←سوال: نیا قطعہ |
(کوئی فرق نہیں)
|
نسخہ بمطابق 10:15، 14 اگست 2016ء
سوال
انسانی رویہ
آٹھویں صدی عیسوی کی ابتدا میں دنیا میں نئی اصطلآع و روایت اورمثال سامنے آئی. بنی نوح انسان اتنا بے حس ہوا کہ بنا کسی شریکیت ، مناسب وجہ ویزے و پآسپوسرٹ یا رسمی اجازت کے اور. یا کسی شراکت و .مخآصمت و عداوت کے سمندر پار حملہ کر دیا اس سے قبل اکثر علاقوں پر حملے اور قبضے ہوتے رہے . یونانیوں .ایرانیوں .مصریوں عربوں اور کنعانیوں اور رومیوں نے حملے بھی کیے اور قبضے بھی. ساری لڑایاں یا تو دشمنی کی وجہ سے ہویں یا پھر انتقام اور مشترکات پہ . اندلس پر یوں حملہ . قبضہ اور پسپائی اور رسوائی . اس سے کئی مثالیں و معآورے نکلے ملوک الطایف .بربریت .اپریل فول کشتیاں جلانا . موسیٰ بن نصیر کا دمشق گلیوں میں فاقہ کشی کی حالت اور آخری وقت . اسی مفلوک الحالی کی حالت میں مرنا . آج تک کسی نے مناسب وضاحت نہیں کئی کہ اس 7 سو سالہ قبضے کا جواز کیا تھا . اس کا انسانی رویوں پر کیا اثر ہوا . جب تک اس کی وضاحت نہیں ہو جاتی کیا یہ دنیا اک محفوظ جگہ ہی . طارق بن زیاد موسیٰ بن نصیر کئ اس دراندازی کو کیا جآٹز مان لیا جاۓ کیا یہ اہم سوال نہیں .؟ کیا انسانی رویوں کا جایزہ وقت کا تقاضہ نہیں . کہ دنیا حراسمنٹ کا خاتمہ ہوسکے ؟ Manzoor khan 1 (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 14:10, 13 اگست 2016 (م ع و)
- منظور صاحب، اصولی طور پر تو شاید آپ کی باتیں صحیح ہوں، مگر جابر اور ظالم لوگوں کو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہاں اپنے محدود دائرے میں کسی کا استحصال ہونے سے یا خود اپنی ذات سے کسی کی حق تلفی ہونے سے روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ --مزمل (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:15, 14 اگست 2016 (م ع و)