"قصاب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
قریشی
(ٹیگ: القاب بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
قریشی
(ٹیگ: القاب بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 31:
 
قصائی قوم ایک ایسی  قوم ہے جن کے جگر سخت اور دل نرم ہوتے ہیں یہ لوگ کڑوے پن میں اپنا پاسنگ نہیں رکھتے اور مٹھاس میں ان کی کوئی مثال نہیں ہے جو کہ عربوں کا موروثی خاصہ ہے اور فراست ان کی گھٹی میں شامل ہے- قصائی قوم قصاب کے پیشے سے زیادہ پہچانی جاتی ہے جو کہ اس قوم کا ایک نمایاں پیشہ ہے لیکن ذی ہوش لوگ یہ باخوبی جانتے ہیں کہ زمانۂ قدیم سے ہی یہ قوم تجارت کے ساتھ کاشتکاری سے بھی وابستہ رہی ہے اور عہد حاضر میں تعلیم، سیاست، قانون، طب، مالیات اور دیگر صنعتی شعبوں سے وابستہ ہے جہاں جذبۂ وفاداری اور فہم و فراست سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے-
 
=== ہندوستان میں گوشت اور گوشت فروش: ===
عظیم ہندو بادشاہ آشوکا ٢٢٧-٢٠٤ ق م کے زمانے میں جانوروں کو مارنے، کاٹنے اور کھانے پر مکمل پابندی تھی- ہندومت میں شدد کے ساتھ گائے کو مارنے، کاٹنے اور کھانے کی ممانعت کی وجہ مہاراجہ کرشنا کی کہانی کو بتایا جاتا ہے جب ویشنود دیوتا کرشنا کی پیدائش ہوتی ہے تو یہ ننھا کرشنا گئوشالہ میں پرورش پاتا ہے اور اس کی پسندہ غذا دودھ، دھی اور مکھن ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسے گوپالا یعنی گائے کا پالا ہوا کا خطاب ملا- اس لئے آج بھی ہندو لڑکوں کا نام گوپالا اور گوپال رکھنا پسند کرتے ہیں- یوگ دیوتا شیوا سفید بیل سواری کے طور پر رکھتا تھا جسے "نندی" کہا جاتا تھا لہٰذا برہمن پجاریوں اور اشوک کے پیروکاروں نے اس نظریے کو خوب پروان چڑھایا اور اس کی نفی کو جرم قرار دیا گیا یعنی گائے کو مارا نہ جائے کیونکہ یہ متبرک ہے پورے ہندوستان میں گائے کو نہ مارنے "Aghnya" کو مذہب قرار دیا گیا اور یوں گائے کو مارنے یا اس کی ترغیب دلانے کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا جس کی سزا موت مقرر کی گئی تھی- جانوروں کو گزند نہ پہنچانے "Ahinsa" کی اصطلاح مذہبی اور قانونی طور پر بہت اہمیت رکھتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہندوؤں میں گوشت کھانا ممنوع ہے اور ہندو سبزی خور "Vegetarian" قوم کہلاتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں گوشت فروشی کا پیشہ عربوں کی آمد سے پہلے نہیں تھا اسی مناسبت سے پنجاب کی ذاتیں نامی کتاب میں درج ہے کہ "ہندو معاشرے میں قصاب کے پیشے کی کوئی گنجائش نہیں ہے" لہٰذا بجاطور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں گوشت فروشی کا پیشہ عربوں نے متعارف کروایا تھا- ابن بطوطہ نے اپنے مشہور سفرنامے میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "عرب ہندوستان میں روزانہ سینکڑوں جانور ذبح کرتے ہیں" ہندوستان میں عرب جانوروں کے ذبح سے گوشت اور کھال حاصل کرتے تھے کھال کا استعمال عرب قدیم زمانے سے جانتے تھے عرب میں کھال سے خیمے تیار کئے جاتے تھے اس لئے کھالیں عرب بھیج دی جاتی تھیں اس طرح عرب اور ہندوستان کے درمیان کھالوں کی تجارت کا آغاز ہوا- تاریخ ابن خلدون میں ذکر ملتا ہے کہ "عام طور پر قبیلہ قریش کے لوگ مویشی اور کھالوں کی تجارت کیا کرتے تھے" ہندوستان میں پہلے پہل اس پیشے کو قریش ہی کیا کرتے تھے اس لئے شیخ جی پکارے جاتے تھے-
 
ہندوستان میں عرب حملہ آوروں کی آمد، عرب تاجروں کا بڑی تعداد میں قیام کرنا اور مقامی لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مسلمان آبادی میں روزباروز اضافہ ہوتا رہا اور گوشت فروشی کا پیشہ ہندوستان میں پھلتا پھولتا رہا- ابن خلدون لکھتا ہے "قصاب کا پیشہ متمدنی ترقی کے سلسلے میں ہے متمدن لوگ گوشت کا کھانا ضروریات میں سے سمجھتے ہیں" اس طرح قصابوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا- پنجاب کی ذاتیں نامی کتاب میں مصنف ڈینزل ابسٹن ١٩٣١ کی مردم شماری کے حوالے سے لکھتا ہے "قصابوں کی تعداد اتنی زیادہ نظر آتی ہے کہ مبالغے کا گمان ہوتا ہے" جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ پنجاب میں جٹوں نے قصاب کے پیشے کو اختیار کیا اسی طرح دیگر مقامی نومسلموں نے اس پیشے کو بطور روزگار اپنایا جن نو مسلموں نے قصاب کا پیشہ اختیار کیا ان میں دو گروہ بن گئے یعنی چھوٹے کے قصاب جو بکری بھیڑ کے گوشت فروش تھے اور بڑے کے قصاب یعنی گائے، بھینس اور اونٹ کے قصاب- قبیلہ قریش کے لوگ یہ تمیز نہیں کرتے یہ تقسیم نو مسلموں میں اپنے سابقہ مذہب سے آئی تھی جہاں پیشہ ذات ہوتی تھی اس لئے انھوں نے ناصرف قصاب کے پیشے کو ذات بنا دیا بلکہ ایک پیشے کو دو ذاتوں میں تقسیم بھی کردیا-
 
ہندوستان میں گوشت فروشی کا پیشہ کبھی آسان نہ رہا کبھی مذہبی اور کبھی قانونی ہتھکنڈوں کے زیر عتاب رہا ہندوستان میں جلال الدین محمد اکبر کے دور حکومت میں گوشت فروشی کے پیشے کو بہت نقصان پہنچایا گیا تھا اکبر کا دور حکومت طویل ترین دور تھا اکبر نے ہندوستان میں آدھی صدی یعنی تقریبآ پچاس برس حکومت کی- اکبر نے "صلح کل" کے نام پر مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی جو "دین الہی" کہلایا- اس نے ہندوؤں کو خوش کرنے کیلئے گائے کے ذبح پر مکمل پابندی لگا دی اور دوسرے حلال جانوروں کے ذبح پر بھی بھاری ٹیکس عائد کر دیئے اور کاروباری قواعد و ضوابد کافی سخت کر دیئے- آئین اکبری کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کوتوال کے فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالے سے سرکاری حکم تھا کہ "یکم فروریں سے انیس ماہ مذکور تک چاند گرہن اور سورج گرہن کے دنوں میں نیز ہر اتوار کو جانور ذبح نہ ہونے دے" آئین اکبری جلد اول حصہ دوئم مترجم مولوی فدا علی ١٩٣٩ حیدرآباد دکن- اکبر اور اشوک جو اس سے اٹھارہ سو برس پہلے گزرا، کے درمیان مذہبی رجحانات اور گوشت سے پرہیز میں ہم آہنگی انتہائی حیران کن حد تک تھی- جہانگیر کے دور حکومت میں حالات کچھ بہتر ہوئے اس کے بعد شاہ جہاں نے ١٦٣٩ میں دہلی شہر کو بطور دارالخلافہ کے آباد کیا جسے اس نے شاہ جہاں آباد کا نام دیا اس میں اس نے نئے بازار تعمیر کروائے جس میں دوسری دکانوں کے ساتھ قصاب کی دکانیں بھی تھیں جو کہ اکبر کے زمانے میں شہر سے باہر رکھنے کا حکم تھا اس طرح شاہ جہاں نے اکبر کے مظالم کا کسی حد تک ازالہ کیا- اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں اکبر کے دین الہی کا اثر بالکل ختم ہو گیا اور گوشت خوری بڑھنے لگی اس نے قصابوں پر عائد پابندیوں کو نرم کیا اورنگ زیب عالمگیر کے مصاحبین میں ایک شخص محمد بخش قصاب برادری سے تعلق رکھتا تھا-
 
١٨٥٧ میں برطانیہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور جامع مسجد کو بطور فوج کی قیام گاہ اور گھوڑوں کے اصطبل استعمال کیا- مسلمانوں کی لاکھ کوشش کے باوجود انگریز قبضہ ختم کرنے کو تیار نہ ہوئے بالآخر ١٨٦١ میں میرٹھ کے ایک قصاب الہی بخش نے بھاری معاوضہ ادا کرکے واگزار کروایا اس کے بعد جامع مسجد دہلی کی صفائی کروائی گئی اور نماز پنچگانہ کا اہتمام کیا گیا- سر سید احمد خان نے اپنی کتاب آثار الصنادید میں جامع مسجد دہلی کے واگزار ہونے کی بابت لکھا ہے- انگریز چونکہ گوشت خور قوم ہے لہٰذا گوشت فروشوں کو کاروبار بڑھانے کا موقع ملا اور ساتھ ہی کھالوں کا کاروبار ہندوستان میں ترقی کرنے لگا کھالوں سے چمڑا بنانے کے کارخانے قائم کئے گئے  جو زیادہ تر کانپور میں تھے جہاں دباغت کے بڑے بڑے کارخانوں میں کھال سے چمڑا بنایا جاتا تھا ان کارخانوں میں بھی قصاب برادری کے لوگ کام کیا کرتے تھے- دباغ عربی زبان کا لفظ ہے اور عرب میں یہ کام صدیوں سے ہوتا آیا تھا- آگرہ میں قصاب بڑی تعداد میں آباد تھے اور مالی طور پر مستحکم تھے لہٰذا حکومتی ضروریات کے لئے گوشت کے ٹھیکے آگرہ کے قصابوں کو دیئے جاتے تھے آگرہ سے گوشت کی سپلائی دوسرے علاقوں میں بھی کی جاتی تھی- آگرہ کے قریب کاگا رول نامی گاؤں کے بدرالدین معروف ٹھیکے دار تھے جنھیں انگریز سرکار نے "خان بہادر" کا خطاب دیا تھا خان بہادر بدرالدین کو سماجی کاموں میں بھی امتیازی مقام حاصل تھا-
 
گوشت فروشی کے پھلتے پھولتے پیشے کو ایک کاری ضرب کانگریس راج میں لگی ١٩٣٨ میں کانگریس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں پر مظالم ڈھانا شروع کر دیئے اس تسلسل میں گوشت فروش قصابوں کو زیادہ ہی ظلم کا نشانہ بنایا- ٩ نومبر ١٩٩٩ روزنامہ جرآت کی اشاعت ہندوؤں کے مظالم تحریر ابن شفیع کالم کا قسط وار سلسلہ شروع ہوا، کے مطابق ١٩٣٨ میں قصبہ دودی کے میلے میں قصابوں نے کئی ہزار مویشی خریدے اور مال گاڑی میں بک کرائے تو ہندوؤں کی منظم جماعت نے یکبارگی حملہ کر دیا اس حملے میں مقامی صدر کانگریس کمیٹی بھی شامل تھا اس حملے میں مالی نقصان کے علاوہ قصاب مجروح اور شہید بھی ہوئے، مولانا سیٹھی ندوی کا بیان- دوسرا واقعہ، گورکھپور کے ایک محلہ زاہد آباد میں گائے کی قربانی پر پابندی عائد کردی گئی- تیسرا واقعہ، قصبہ باد گنج میں کانگریس میں مجسٹریٹ نے قربانی پر پابندی لگادی اور قصبے کے ارد گرد پولیس کا پہرا لگا دیا- چوتھا واقعہ، اٹاوہ ڈسٹرکٹ بورڈ نے مسلمانوں کی مخالفت کے  باوجود گاؤ کشی کے انسداد کا ریزولوشن پاس کردیا- ایسے بہت سے واقعات ہندوستان میں کانگریس راج میں معمول تھے اس سلسلے میں سب سے زیادہ مظالم صوبہ متوسط و برار سی پی میں ڈھائے گئے جن کا ذکر کتاب "سی پی میں کانگریس راج" مرتبہ حکیم اسرار احمد کریوی ناشر نیشنل بک فاونڈیشن میں تفصیل سے موجود ہے اسرار احمد عرض حال میں لکھتے ہیں "اس رپورٹ میں صرف صوبہ متوسط و برار کے واقعات وحالات ہیں اور یہی وہ صوبہ ہے جس کے ایک گاؤں سیوا گرام کو گاندھی کی مستقل قیام گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے" کتاب میں لوکل گورنمنٹ کے عنوان سے میونسپلٹی، ڈسٹرکٹ بورڈوں اور نوٹیفائڈ ایریا کمیٹیوں کا آبادی، مسلم تناسب، تعلیم، تنخواہ، ملازمت اور گوشت کی فراہمی کے حوالے سے تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا ہے جس سے پورے صوبے کے حالات کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے- سی پی میں گائے کے ذبح پر بہت سے مقامات پر سرکاری طور پر پابندی عائد تھی ذبح کئے جانے والے جانور پر سینگ اور بغیر سینگ کے فرق سے الگ الگ ٹیکس نافذ کردیا گیا اور کہیں گوشت فروشی کے لائسنس کی فیس جو کہ پانچ سو روپے سالانہ تک تھی، لاگو کر دی گئی اور گوشت فروشی کا کوئی معقول انتظام بھی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ مذبح خانوں کی حالت سدھارنے کی طرف کوئی سرکاری توجہ نہیں تھی اس تناظر میں صوبے میں قصاب کے پیشے کی معاشرتی اور معاشی حالت بہت بری ہو گئی تھی قصاب اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے-
 
گوشت فروشی کی ہندوستان میں صرف پنجاب اور یوپی میں نسبتاً حالت بہتر رہی جس کی وجہ سے قصابوں کی معاشی اور معاشرتی حالت بہتر تھی ہندو اپنی شرانگیزیوں سے باز رہتے تھے- یوپی کے شہر آگرہ میں قصاب کے حوالے سے سیٹھ اجمیری کا نام پورے آگرہ میں سرکاری اور سیاسی طور پر جانا جاتا تھا آگرہ میں سیٹھ اجمیری کو اچھا خاصا اثر و رسوخ حاصل تھا جس کی وجہ سے ہندو آبادی بھی اس کے دبدبے میں تھی یہ ہی وجہ تھی کہ تقسیم ہند کے وقت ہندوؤں کی قتل و غارت گری کے باعث آگرے کے قرب و جوار کے لوگ آگرے میں سیٹھ اجمیری کے پاس پناہ لینے آئے جن کو اس نے علاقے کی مساجد میں پناہ دی اور ان کے طعام و قیام کا معقول انتظام کیا- مساجد میں پناہ کے حوالے سے پنجاب کا ایک واقعہ ٤ مارچ ١٩٩٤ کے روزنامہ جنگ کراچی کے ڈائجسٹ صفحے پر مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے شخص محمد عبداللہ کے مضمون "میں کیسے پاکستان پہنچا" کی تیسری قسط میں بیان کیا گیا- مضمون نگار لکھتا ہے کہ ڈالمیا دادری سے نکلنے کے دوران ہندو بلوائیوں سے بچنے کی غرض سے قصابوں کے محلے کی مسجد میں ہمارے خاندان سمیت لگ بھگ دو سو خواتین و بچوں نے پناہ لے رکھی تھی اور مسجد کی چھت پر ہندوؤں کے خلاف مورچہ قائم تھا جہاں کریم پہلوان نامی شخص ہندو بلوائیوں کا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جوانمردی سے مقابلہ کر رہا تھا- گوشت فروشی ہندوستان میں آج بھی حساس مسئلہ ہے جبکہ ہندوؤں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو باقاعدہ گائے کی تجارت کرتا ہے بلکہ اب تو ہندوستان سے گوشت عرب اور دیگر ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے جس میں زیادہ گائے کا گوشت ہوتا ہے- الیکشن کے زمانے میں سیاسی لیڈر ہندو اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے آج بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ اگر ہم آگئے تو گئو کشی بند کرا دیں گے اور گئو کشی کو مکمل ممنوع کر دیں گے اس دوغلی پالیسی کی وجہ سے اب تک ہندوستان میں گوشت فروشی کے پیشے کی حیثیت کا تعین نہیں ہو سکا ہے-
 
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں گئو کشی کا مسئلہ تو ختم ہو گیا لیکن قصاب کے پیشے کی وقعت اور مقام تقریبآ وہی ہے جو ہندوستان میں تھا یہ پیشہ قصابوں کی اپنی کوششوں اور کاشتکار بھائیوں کے تعاون سے چل رہا ہے جو مویشیوں کی افزائش نسل کرتے ہیں جس سے گوشت کی فراہمی ہوتی ہے- حکومتی سطح پر قصاب کے پیشے اور عوام کو گوشت کی مناسب قیمت اور باآسانی فراہمی کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی دنیا کی دیگر حکومتیں لائیو اسٹاک کی درآمد و برآمد کیلئے پالیسیاں وضع کرتی ہیں- پاکستان میں حکومتی سطح پر سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے طلب و رسد میں توازن بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گوشت کی قیمتیں گراں سے گراں ہوتی جارہی ہیں جس سے جہاں خریدار متاثر ہورہے ہیں وہاں قصاب کے منافع میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے قصاب معاشی بدحالی کا شکار ہوتے جارہے ہیں- قیام پاکستان سے قبل بھی یہاں ہر صوبے اور شہر میں قصابوں کی آبادیاں تھیں ہجرت کی وجہ سے ان میں مزید اضافہ ہوا- ہندوستان کے تقریبآ تمام علاقوں سے قصاب ہجرت کرکے پاکستان میں سندھ سے خیبر تک آباد ہوئے جن کی آپس میں رشتے داریاں اور رابطے ہیں-
 
مملکت خداداد پاکستان میں آزادی کے بعد پہلی عید الفطر ١٨ اگست ١٩٤٧ کو منائی گئی مرکزی نماز عید اس وقت کے دارالحکومت کراچی کی جامع مسجد قصابان عید گاہ میدان میں ادا کی گئی جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے باحیثیت گورنرجنرل پاکستان اپنے رفقاء کار اور دیگر معززین کے ہمراہ شرکت فرمائی-
 
جامع مسجد قصابان عید گاہ میدان ایم اے جناح روڈ کراچی قیام پاکستان کے قبل سے صدر کے قصابوں کے زیرانتظام تھی جن کی اولادیں اب بھی صدر میں رہائش پزیر ہیں جو جامع مسجد قصابان صدر بازار کراچی کی نظامت و خدمت پر مقرر ہیں یہ مسجد ١٣١٩ھ /١٩٠٠ میں تعمیر کی گئی تھی قصاب برادری نے ہمیشہ قومی معاملات میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے قصاب برادری کا فرد واحد بھی اگر اپنے اردگرد گڑبڑ والا معاملہ ہوتا دیکھتا ہے تو بے خوف و خطر ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے جس کی مثال وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے راولپنڈی میں شہید کئے جانے کے واقعے سے ملتی ہے جب سید اکبر نے لیاقت علی خان پر گولی چلائی تو جہاں دیگر لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی وہیں ایک قصاب نے سید اکبر کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا- راولپنڈی میں قصاب برادری بڑی تعداد میں آباد ہے جہاں کاروباری حالت بھی بہتر ہے اور معاشرتی طور پر بھی قصاب مستحکم ہیں- برصغیر پاک و ہند میں جہاں جہاں قصاب برادری آباد ہے ان کے رہن سہن، عادات و اطوار اور کاروباری انداز میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے-