"قصاب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
قریشی
(ٹیگ: القاب بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
قریشی
(ٹیگ: القاب بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 1:
[[ملف:Syrian butcher in Aleppo1.JPG|تصغیر|قصاب]]
 
[[گوشت]] کا [[کاروبار]] کرنے والے کو '''قصاب''' کہتے ہیں، قصاب کے لئے [[قصائی|'''قصائی''']] کا لفظ زیادہ مقبول{{زیر}} عام ہے۔
 
برصغیر میں بسنے والے [[قریش|قریشی]] برادری کے زیادہ تر لوگ قصائی ہیں۔
سطر 50:
 
جامع مسجد قصابان عید گاہ میدان ایم اے جناح روڈ کراچی قیام پاکستان کے قبل سے صدر کے قصابوں کے زیرانتظام تھی جن کی اولادیں اب بھی صدر میں رہائش پزیر ہیں جو جامع مسجد قصابان صدر بازار کراچی کی نظامت و خدمت پر مقرر ہیں یہ مسجد ١٣١٩ھ /١٩٠٠ میں تعمیر کی گئی تھی قصاب برادری نے ہمیشہ قومی معاملات میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے قصاب برادری کا فرد واحد بھی اگر اپنے اردگرد گڑبڑ والا معاملہ ہوتا دیکھتا ہے تو بے خوف و خطر ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے جس کی مثال وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے راولپنڈی میں شہید کئے جانے کے واقعے سے ملتی ہے جب سید اکبر نے لیاقت علی خان پر گولی چلائی تو جہاں دیگر لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی وہیں ایک قصاب نے سید اکبر کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا- راولپنڈی میں قصاب برادری بڑی تعداد میں آباد ہے جہاں کاروباری حالت بھی بہتر ہے اور معاشرتی طور پر بھی قصاب مستحکم ہیں- برصغیر پاک و ہند میں جہاں جہاں قصاب برادری آباد ہے ان کے رہن سہن، عادات و اطوار اور کاروباری انداز میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے-
 
=== ذات اور پیشے: ===
ہندوستان میں لوگوں کی حیثیت پیشے کے لحاظ سے متعین کر دی جاتی تھی بلکہ یوں کہیں تو زیادہ صحیح ہوگا جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ذات کے حوالے سے پیشے اختیار کیے جاتے تھے مسلمانوں نے یہاں جو پیشے اختیار کئے ان کے لحاظ سے ان کا معاشرتی رتبہ متعین کر دیا گیا ان مسلمانوں میں نومسلم بھی شامل تھے جو وہ ہی پیشے کرتے رہے جو مسلمان ہونے سے پہلے کرتے تھے- عرب سے آنے والوں نے نئے پیشے بھی ہندوستان میں متعارف کروائے جو کہ پیشے کے نام اور نوعیت سے باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں- اسلام مساوات اور اخوت کا درس دیتا ہے چنانچہ مسلمانوں میں پیشے کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہیں ہے- زمانۂ قدیم میں عرب کا خاص پیشہ گلھ بانی اور مویشی چرانا رہا ہے اسلام کی عظیم شخصیات نے یہ پیشہ اختیار کیا- ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بکریاں چرائیں اب کیا کوئی مسلمان چرواہے کے پیشے کو برا کہہ سکتا ہے یقیناً نہیں جو اپنے آپ کو مسلمانوں میں اشرف سمجھتے ہیں ان کے آباواجداد بھی بکریاں چرایا کرتے تھے اگر مسلمان ذات پات کو مانتے تو یقیناً اشرف ذات چرواہے کہلاتی اگر پیشے کے لحاظ سے اونچ نیچ ہوتی تو مسلمانوں کے نزدیک سب سے اونچا اور مقدس پیشہ مویشی چرانا قرار پاتا جس میں بہت برکت ہے جس سے بنی آدم کو خوراک ملتی ہے اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء حاصل ہوتی ہیں- کوئی پیشہ نہ کسی کا حق ہے اور نہ کسی پر فرض، یہ تو محض ذریعہ معاش ہے یہ ہی وجہ ہے کہ امراء و اشراف جب کبھی بے منصب ہوئے تو ان کی اولادوں نے مختلف پیشے اختیار کئے اسی طرح عام پیشوں کے کرنے والوں کی اولادوں نے قاضی اور سپھ سالاروں کے منصب حاصل کئے- ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے پیشہ بدلنا بہت دشوار تھا لوگ نسل درنسل پیشوں میں جکڑے ہوئے تھے
 
ہندو معاشرے کے چند مروجہ پیشے یہ ہیں بڑھئی، دھوبی، کمہار، لوہار، نائی، سنار، تیلی، بھانڈ، جلاہا، بھٹیارا، دھنیا، اور کنجڑا وغیره ان تمام پیشوں کا نام ہندی یا سنسکرت زبان میں ہے جس سے باآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تمام پیشے مقامی طور پر مروج تھے اور ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کے تحت ان کی ذات کا تعین تھا چونکہ پیشے معاشرے کی ضرورت ہیں اس لئے ان پیشوں کو مسلمان بھی کیا کرتے تھے ہندوؤں نے ان مسلمانوں کو بھی معاشرے میں وہی مقام دیا جو ان پیشوں سے وابستہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو دیا کرتے تھے اور رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بھی پیشے کے اعتبار سے حیثیتوں کا تعین ہونے لگا- کچھ پیشے اپنے نام کی مناسبت سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پیشے ہندوستان میں باہر سے آئے تھے درزی فارسی زبان کا لفظ ہے اور درزن بمعنی سینا سے بنا ہے یعنی سینے والا یعنی کپڑے یا لباس سینے والا- اس پیشے کا نام فارسی ہونا اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ یہ پیشہ ایران سے ہندوستان میں آیا تھا فارسی زبان بولنے والوں کی آمد سے پہلے لباس سینا باقاعدہ پیشہ نہ تھا اور بعد میں ہندوؤں نے لباس سینے کا کام بطور پیشہ اپنایا ہو گا- 
 
قصاب کا پیشہ بھی ہندوستان میں نہیں تھا اس پیشے کا نام عربی ہے قصب جس کے معنی کاٹنے کے ہیں اس لفظ سے قصاب بنا عربی میں فعل سے فاعل بنانے کے طریقوں میں ایک طریقه یہ ہے کہ لفظ کے دوسرے حرف پر تشدید لگا کر الف کا اضافہ کرنے کے بعد آخری حرف لکھ دیا جاتا ہے یعنی قصاب خالصتاً عربی پیشہ ہے- جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ عرب تاجروں کی مسلمان حملہ آوروں کی آمد سے پہلے آبادیاں قائم تھیں جو اپنی آبادیوں میں گوشت کی ضرورت بکری، دنبہ اور اونٹ ذبح کرکے پوری کر لیا کرتے تھے- محمد بن قاسم کے دور حکومت میں ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے قصاب کا پیشہ باقاعدہ پیشے کی صورت اختیار کر گیا- قصاب کا پیشہ واحد پیشہ ہے جو صرف مسلمان کیا کرتے تھے ہندو مذہب میں گوشت کھانے کی ممانیت اور گائے کی پوجا کی وجہ سے ہندو یہ پیشہ اختیار نہیں کر سکتے تھے بلکہ ہندو اس پیشے کو بہت برا سمجھتے تھے اور ہندو مذہب سے دشمنی گردانتے تھے- اس پیشے کو شروع میں اہل قریش کیا کرتے تھے بعد میں اس پیشے کو نومسلموں نے بھی اختیار کیا جہاں پوری کی پوری آبادی مسلمان ہو گئی تھی جن کا تعلق کسی ایک ذات یا ایک دیہات سے ہوتا تھا جیسے پنجاب کے جٹ، میوات کے دیہاتی وغیرہ- پنجاب کی ذاتیں نامی کتاب مترجم یاسرجواد میں ١٩٣١ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے حوالے سے لکھا ہے کہ پنجاب کے جٹ خود کو قصاب بتاتے ہوئے پائے گئے اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ پیشہ کسی نسل یا قوم کیلئے مخصوص نہیں ہوتا- اس کتاب میں قصاب کے پیشے کو روایتی پیشوں سے الگ متفرق دستکار کے عنوان سے درج کیا گیا ہے- اکبری عہد میں ہندو ذات کے مقابلے میں مسلمانوں میں برادری کی اصطلاح رائج ہوئی مثلاً درزی برادری، قصاب برادری وغیرہ یعنی ہم پیشہ لوگوں کے گروہ کو برادری کہا جانے لگا جیسے آج کل وکلاء برادری، انجینئر برادری وغیرہ کہا جاتا ہے
 
=== عرب مسلمانوں پر ہندو سماج کے اثرات: ===
مسلمانوں کا دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے اسلام کی تعلیم فہم سے ماورا نہیں ہے ہر حکم اور دلیل عقل و فہم سے ثابت ہوتی ہے اس بات کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں میں دینی طور پر تو ہندو مذھب کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن معاشرتی طور پر مسلمان ضرور متاثر ہوئے جبکہ ہندوؤں کی کثیر تعداد نے اپنے سماجی رویوں سے سے اکتاہٹ کا اظہار کیا جس کی وجہ سے بہت سی ہندو آبادی دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی اس اختلاط کی وجہ سے مسلمانوں کے سماجی رویوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں سب سے نمایاں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے بھی مختلف نسبوں سے تعلق رکھنے والوں کا ایک گروپ تشکیل دے لیا جس کو اشراف کہا جانے لگا اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ بعد میں اس تقسیم کو مزید وسعت گئی ١٩٣١ کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی مندرجہ ذیل چار ذاتیں قرار دی گئیں-
 
١- '''اشراف''' -------------- سید، مغل، پٹھان اور شیخ،
 
٢- '''مسلم راجپوت''' -------- نو مسلم اعلیٰ ذات کے ہندو،
 
٣- '''میواتی مسلمان''' ------- نو مسلم دیہاتی ہندو اور عرب بدو،
 
٤ - '''پاک کام کرنے والے''' - روز مرہ کے کام کاج کرنے والے نو مسلم مقامی اور غیر مقامی،
 
دراصل یہ چار گرہوں میں تقسیم ہندوؤں کی چار ذاتوں میں تقسیم کی نقل تھی یہ تقسیم پھر ایک لمبی تقسیم در تقسیم کی صورت میں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے بھی زیادہ گھناؤنی شکل اختیار کر گئی جو مسلمانوں میں نفاق کا باعث بنی-
 
یوں سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
 
تم سبھی کچھ  ہو  بتاؤ تو  مسلمان بھی  ہو
 
اشراف المسلمین میں بھی اعلیٰ اور ادنیٰ کا مسئلہ درپیش رہتا تھا جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے-
 
١- '''سید:''' علامہ سید سلیمان ندوی اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں "ظہور اسلام کے بعد عربوں اور مسلمانوں میں نسبی حیثیت سے سب سے بڑا درجہ سادات کا ہے" موجودہ سادات خاندانوں میں سے زیادہ کا تعلق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے حضرت زین العابدین کی نسل سے ہے حضرت زین العابدین کی والدہ شہربانو عرب نہ تھیں ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایرانی تھیں اور خاندان شاہی سے تھیں مگر مورخوں میں سے بعض نے ان کو سندھ کا بتایا ہے اگر یہ اخیر قول صحیح ہے تو اس کے ماننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے شریف و مقدس خاندان کے نسب میں ہندوستان کا بھی حصہ ہے- سلطان محمود تغلق کی وفات ١٤١٣ کے بعد تغلق دور کا خاتمہ ہو گیا افغان امراء نے زمام اختیار دولت خان کے ہاتھ میں دے دیا مگر جلد ہی لاہور کے گورنر خضر خان نے دہلی پر قبضہ کرکے ١٤١٤ میں سید خاندان کی بنیاد رکھی اس خاندان کے لوگ اپنے نام میں سید کے ساتھ شاہ بھی لگاتے ہیں- سادات کے دو سلسلۂ نسب ہیں اول سادات حسنی اور دوئم سادات حسینی- سادات حسنی حضرت امام حسن رضی الله تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں حسن مثنیٰ اور زید کی اولاد ہیں جبکہ سادات حسینی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زین العابدین کی اولاد کو کہتے ہیں یہ دونوں سلسلۂ سادات مسلمانوں کے دونوں فرقوں یعنی شیعہ اور سنی سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ہی خود کو صحیح النسب کہتے ہیں سادات حسنی و حسینی کی مزید شاخیں زیدی، عابدی، باقری، جعفری، موسوی، رضوی اور عسکری وغیرہ کہلاتی ہیں جملہ سادات ہاشمی قریشی ہیں-
 
٢- '''مغل:''' ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین محمد بابر باپ کی طرف سے ایشیا کے نامور فاتح امیر تیمور کی اولاد تھا اور ماں کی طرف سے اس کا شجرہ نسب چنگیز خان تاتار سے جا ملتا ہے جسے خونی فتوحات کی وجہ سے "قہر الہی" کہا جاتا ہے بابر اپنے آپ کو ہمیشہ ترک کہا کرتا تھا اور تاتاریوں یا منگولوں سے نسبت کو اپنے لئے عار خیال کرتا تھا چونکہ اس زمانے میں برصغیر کے لوگ شمال مغرب سے آنے والے ہر حملہ آور کو مغل کہتے تھے اس لئے مغل کہلائے- مغلوں نے تقریباً تین سو برس سے زائد عرصے ہندوستان پر حکومت کی لہٰذا ہندو مسلمان ان کی عزت کرنے لگے اور انھیں مسلمانو کے اشراف میں شمار کیا جانے لگا- مغل نسب کی وجہ سے اشرف نہیں کہلائے بلکہ جاہ و جلال کی وجہ سے اشرف مانے گئے جو کہ عربوں کے اصول کے خلاف ہے- مغلوں کی ذیلی شاخیں چغتائی، قزلباش، تازک، تیموری، ترکمان، ازبک اور بیگ وغیره ہیں-
 
٣- '''پٹھان:''' حضرت طالوت افغان قوم کے مورث اعلیٰ تھے جن کا تعلق قبطی نسل سے تھا جو فرعون کی شکست کے بعد بنی اسرائیل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غلبہ پانے کی وجہ سے تباہ ہوئی، تاریخ فرشتہ- بعض روایتوں میں انھیں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی اولاد بتایا جاتا ہے- یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام لانے کے بعد ایک خط افغان قوم کو لکھا جس میں ان کو مسلمان ہونے کی دعوت دی چند لوگ مسلمان ہو گئے جن میں ایک شخص قیس بھی تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایمان لاکر عبدالرشید کے نام سے سرفراز ہوا یہ بات اس قوم کے اکابرین کی روایت میں ملتی ہے کہ حضرت عبدالرشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت فتح مکہ کی مہم میں شریک تھی اس لئے وہ فاتحان مکہ کہلائی یہی لفظ فاتحان سے "فتحان" ہو گیا اور پشتو تلفظ کے سبب بعد میں پٹھان کہا جانے لگا یعنی ف "پ" سے اور ت "ٹھ" سے بدل گیا، سید نجم الحسن مولف اشراف عرب- افغانوں کے کچھ قبیلے مثلاً غوری، سوری اور لودھی خود کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر حضرت سارہ کی اولاد بتاتے ہیں اور قریشی کہلاتے ہیں اس لئے کہ ان کے نانا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریشی تھے ہندوستان کے حکمران غوری اور لودھی ان ہی افغان قبائل سے تعلق رکھتے تھے یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ خان کا لقب اختیار کرتے ہیں-
 
٤- '''شیخ:''' شیخ عرب میں آقا یا سردار کے معنے میں بولا جاتا ہے اسی حوالے سے عرب دنیا کے حکمرانوں کے نام کے ساتھ شیخ لگایا جاتا ہے- شیخ کسی کو عزت سے مخاطب کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے یعنی بزرگ اور معزز، ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آنے والے قریش شیخ کہلاتے تھے- قریش کے خاندان بنو اسد میں پیغمبر اسلام کے زمانے میں ہبار بن اسود شخص تھا جو پیغمبر اسلام کا سخت دشمن تھا آخر وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اس کی اولاد میں سے ایک شخص حکم بن عوامہ کلبی والئ سندھ کی معیت میں سندھ میں وارد ہوا اس کا پوتا عمر بن عبدالعزیز ہباری کو سندھ کی ولایت حاصل ہوئی جو منصورہ کا حکم بنا- ٢٧٠ھ میں راجہ مہروگ نے جس کا راج "کشمیر بالا" کشمیر اور "کشمیر زیریں" پنجاب کے بیچ میں تھا جو ہندوستان کے بڑے راجاؤں میں شمار ہوتا تھا، خط لکھ بھیجا کہ کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیجو جو ہم کو اسلام ہماری زبان میں سمجھا سکے عبداللہ بن عمر نے ایک عراقی مسلمان جو بہت تیز طبیعت، سمجھدار اور شاعر تھا اور ہندوستان میں رہا تھا وہ ہندوستان کی کئی زبانیں جانتا تھا، کو ہندو راجہ کے پاس بھیجا جس نے تیس ٣٠ برس میں قرآن کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اس طرح قرآن کا دنیا کی کسی زبان میں پہلا ترجمہ ہباری خاندان کے زمانے میں ہوا شیخ الاسلام زکریا ملتانی اس خاندان میں پیدا ہوئے جو ملتان میں جا کر آباد ہو گیا تھا اس خاندان کی اولاد شیخ قریشی کہلاتی ہے- ہندوستان میں شیخ صدیقی، شیخ فاروقی، شیخ عثمانی، شیخ انصاری اور شیخ ہاشمی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں-
 
سیدوں کا رہن سہن ایران و عراق اور شام سے متاثر تھا مغل ترک اور تاتاری تہذیب و ثقافت رکھتے تھے پٹھان افغانی روایات پر عمل پیرا تھے شیخ کسی حد تک عربی انداز زندگی اپنائے ہوئے تھے جبکہ نو مسلم راجپوت قدیم ہندوستانی رسم و رواج رکھتے ہوئے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان وجوہات کی بنا پر ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت میں ہمہ رنگی پائی جاتی ہے-
 
=== عرب مستعربہ "قوم قریش" ===
قوم قریش یا قبیلہ قریش کو جزیرہ نمائے عرب میں نہایت معزز حیثیت حاصل تھی جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے- قریش وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں ایک روایت کے مطابق آپُ کے جد اعلیٰ نضر بن کنانہ کو پہلے پہل قریش پکارا گیا- نضر بن کنانہ کا لقب قریش یوں ہوا کہ ایک دن نضر بن کنانہ اپنی قوم کی چوپال میں آیا تو موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا دیکھو وہ نضر ایک بڑا زبردست طاقتور معلوم ہوتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قریش کا یہ نام ایک بحری جانور کے نام پر رکھا گیا جسے قریش کہا جاتا تھا جو تمام دوسرے بحری جانوروں کو کھا جاتا تھا اور چونکہ وہ بحری جانوروں میں سب سے زیادہ قوی اور طاقتور تھا اس لئے نضر بن کنانہ کو اس سے مشابہت دی گئی- بعض روایات میں نضر بن کنانہ کے پوتے فہر بن مالک کی وجہ سے اس خاندان کا نام قریش ہوا فہر بن مالک عرب میں سب سے طاقتور تھا- یہ لوگ سمندر سے قریب رہنے کی وجہ سے یقیناً سمندری مخلوق سے واقف تھے اس لیے اپنے آپ کو قریش کہلوایا ہو گا- یہ بھی روایت ہے کہ قریش کے تاجر پیشہ ہونے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا ہو کیونکہ "نقرش" کے معنی تجارت کے ہیں- بہرحال اس امر پر تمام مورخین متفق ہیں کہ قریش عرب کی سرزمین پر ایک نہایت طاقتور خاندان، قبیلہ اور قوم تھی- تجارت پیشہ ہونے کی وجہ سے قبیلہ قریش ٹولیوں اور گروہ کی شکل میں جزیرہ عرب میں پھیلی ہوا تھا- قصیٰ بن کلاب نے اس پھیلے  اور بکھرے  ہوئے قبیلے کو مکہ کے گرد و نواح میں جمع کرکے ایک قوم کی شکل میں یکجا کر دیا- قصیٰ بن کلاب کا اصل نام زید تھا قوم قریش کو جمع و یکجا کرنے کی وجہ سے قصیٰ پکارا جانے لگا جس کے معنے ہیں جمع و یکجا کرنے والا- قصیٰ بن کلاب نے نہ صرف قریش کو یکجا کیا بلکہ ایک شہری حکومت بھی قائم کی جو مکہ کے گرد و نواح میں تھی پوری قوم اس کے قوانین کی پابند تھی جو قصیٰ بن کلاب نے نافذ کیے تھے یہ قوانین انھوں نے ہر معاشرتی ضرورت کیلئے وضع کیے تھے مثلاً تجارتی قافلے اور لیں دین، جنگی حکمت عملی اور آداب، حج کے موقعے پر حجاج کی خدمت، لوگوں میں محاسن اخلاق کی تعلیم اور میزبانی بہترین مثالیں ہیں- قصیٰ نے مکہ میں ایک بڑی عمارت تعمیر کروائی جس کا نام "دارالندوہ" رکھا یہاں قریش اپنے تمام امور طے کرتے تھے- جب قصیٰ بن کلاب بہت بوڑھا اور ضعیف ہوا اس وقت تک عبدالدار اس کا سب سے بڑا بیٹا بھی ضعیف ہو چکا تھا البتہ عبدمناف اپنے باپ ہی کے سامنے بڑا معزز شخص ہو گیا تھا اور اسے دنیا کا ہر طرح کا تجربہ ہو گیا تھا اور تیسرا بیٹا عبدالعزیٰ بن قصیٰ تھا- قصیٰ بن کلاب نے اپنے بڑے بیٹے عبدالدار سے کہا میں تجھے اپنی قوم سے ملاتا ہوں اگرچہ وہ شرافت میں تجھ سے بڑھ گئے ہیں مگر جب تک تو کعبے کا دروازہ نہ کھولے ان میں سے کوئی اس میں داخل نہ ہوگا تیرے سوا کوئی دوسرا جنگ کا جھنڈا نہ باندھے گا سب تیرے سقایہ سے پانی پیئں گے حج کے زمانے میں سب تیرے ہاں مہمان ہونگے اور تیرے ہی مکان میں قریش اپنے تمام معاملات طے کریں گے اس طرح قصیٰ بن کلاب نے دارالندوہ جہاں قریش اپنے معاملات طے کرتے تھے عبدالدار کے حوالے کر دیا اور یوں بنو قصیٰ کے مورث اعلیٰ قرار پائے-
 
رفادہ کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں قریش کچھ مال اپنی آمدنی سے نکال کر قصیٰ بن کلاب کو دیدیتے تھے یہ اس سے حاجیوں کیلئے کھانا پکواتے جس سے الله کے مہمانوں کے طعام کا اہتمام کیا جاتا اور جن حاجیوں کے پاس زادراہ نہ بچا ہوتا تھا ان کی مدد کی جاتی- قصیٰ بن کلاب نے یہ چندہ اپنی قوم پر واجب کر دیا تھا اور کہا تھا "اے قریش تم اللہ کے ہمسائے اور اس گھر یعنی حرم والے ہو، حاجی اللہ کے مہمان اور اس گھر کے زائر ہیں اس لئے وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ عزت کے ساتھ ان کی مہمان داری کی جائے تمھیں چاہیئے کہ زمانہ حج میں ان کیلئے کھانے اور پینے کا انتظام کرو" انھوں نے قصیٰ کا کہا مانا وہ اس کیلئے ہر سال اپنے مال میں سے کچھ حصہ بچا کر قصیٰ کو دیدیتے تھے یہ دستور قوم قریش میں قصیٰ بن کلاب کے بعد عبدالدار بن قصیٰ سے لیکر تمام عہد جاہلیت میں برابر قائم رہا اور عہد اسلام میں بھی جاری رہا چنانچہ اب تک جاری اور ساری ہے اب یہ کھانا زمانۂ حج میں حکومت وقت ہر سال منیٰ میں پکوا کر حاجیوں کو مہیا کرتی ہے- قصیٰ بن کلاب نے اپنی زندگی ہی میں یہ تمام ذمہ داریاں عبدالدار کے سپرد کر دی تھیں اور پھر قصیٰ بن کلاب بھی اس کے کسی انتظام یا حکم میں دخل نہیں دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد اس کے سب بیٹے ان فرائض و ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے -
 
عبدمناف بن قصیٰ کے چار بیٹوں میں ایک حضرت ہاشم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا بھی تھے جنھوں نے اپنے دادا قصیٰ بن کلاب کے وضع کردہ انتظامی ذمہ داری کو بہت خوش اسلوبی سے نبھایا ہاشم کا نام عمرو تھا ہاشم اس لیے مشہور ہوا کہ مکہ میں سب سے پہلے روٹیوں کو شوربے میں توڑ کر "ثرید" اپنی قوم کو کھلایا تھا- قوم قریش قحط اور افلاس کی وجہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئی تھی ہاشم فلسطین گئے اور وہاں سے بہت سا آٹا لے کر مکہ آئے اس کی روٹیاں پکوائیں اور بہت سے جانور ذبح کرکے اس کا شوربے والا سالن تیار کروایا اور روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو کر ثرید تیار کرواکر اپنی قوم کی دعوت کی جس کی وجہ سے قریش نے ہاشم کا لقب دیا- ہاشم نے بین الاقوامی تجارت کا آغاز کیا گرمی اور سردی کے موسم میں الگ الگ تجارتی قافلے روانہ کئے جاتے تھے جو مختلف سمتوں میں سفر کرتے ہوئے تجارتی سامان کی خرید و فروخت کیا کرتے تھے اس طرح مکہ دنیا کا تجارتی مرکز بن گیا تھا جس سے قریش میں دولت کی فراوانی ہوئی جو قریش کی خوشحالی کا باعث بنی تو دوسری طرف قریش دنیا کے دیگر ممالک میں پہچانے جانے لگے قرآن میں ایک مختصر سورت "قریش" کے نام سے نازل ہوئی-
 
ارشاد باری تعالیٰ ہے چونکہ قریش مانوس ہوئے جاڑے اور گرمی کے سفروں سے لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا- اس سورت کی تفسیر میں علماء اور مفسرین کہتے ہیں کہ سورت کا لفظ "ایلاف" الف سے بنا ہے جس کے معنی خوگر اور مانوس ہونے کے ہیں اس کے دوسرے معنی پھٹنے کے بعد مل جانے کے یا کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں یہ لفظ اردو میں بھی بولا جاتا ہے الفت اور مالوف اسی لفظ سے ماخوز ہیں یہ تعجب کا اظہار کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے- پھر ان کی تجارت کا ذکر ہے جو یہ گرمی اور سردی کے موسم میں کیا کرتے تھے گرمی اور سردی کے سفر سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی سفر شام و فلسطین کی جانب ہوتے تھے وہ نسبتا ٹھنڈے علاقے تھے اور سردی کے موسم میں سفر وہ جنوبی عرب کے اطراف کیا کرتے تھے کیونکہ وہ گرم علاقے تھے پھر تیسری آیت مبارکہ میں فرمایا کہ قریش کو یہ نعمت اس گھر کی بدولت حاصل ہوئی- وہ یہ جانتے تھے کہ اس گھر کے رب نے ان کو اصحاب فیل سے بچایا انھوں نے ابرہہ کی فوج کے مقابل مدد مانگی تھی اس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب کے صحرا میں منتشر تھے تو ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی وہ عام قبائل کی طرح بکھرے ہوئے تھے مگر جب بیت اللھ کے گرد جمع ہو گئے اور اس کی خدمت انجام دینے لگے تو وہی قریش پورے صحرائے عرب میں محترم ہو گئے پھر آخری آیت میں نشاندہی کی گئی کہ جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں تھا یہ محفوظ رہے- اس وقت پورے عرب کا یہ حال تھا کہ کوئی نفس چین سے نہیں سو سکتا تھا کہ کب کوئی گروہ ان پر شب خون مارنے والا ہے کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے ہر وقت ڈاکہ زنی کا خطرہ موجود تھا مگر قریش کے قافلے آسانی سے تجارتی مقاصد کے لیے سفر کیا کرتے تھے- اصحاب فیل کے واقعے کے بعد قریش کی دھاک بیٹھ گئی تھی ہر قبیلہ یہ فرض کئے ہوئے تھا کہ اللہ ان پر خصوصی طور پر مہربان ہے اس آیت مبارکہ میں ایک اور واضح اشارہ مل رہا ہے کہ جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے یہاں بسنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے- قریش کی بھلائی اتحاد اور کعبة اللہ کے تعلق میں مضمر ہے-
 
قرآن کریم میں مذکور اقوام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ روئے زمیں پر بہت سی قومیں پیدا ہوئیں ان پر انبیاء مبعوث ہوئے پھر انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا گیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل ان پر صرف توحید کی تعلیم تھی اس مختصر سی تعلیم میں بھی انھوں نے شرک کو شامل کر لیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا- جنھوں نے پیغمبر کا انکار کیا وہ قومیں نیست و نابود ہو گئیں جس نے پیغمبر کا ساتھ دیا اور ان کی تعلیمات کو مانا وہ عذاب الٰہی سے بچ گئیں صرف قریش ہی وہ واحد قوم ہے جو خوش قسمتی سے مکمل طور پر محفوظ رہی جو یقیناً دعائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا سبب ہے