"فلمی ہدایت کار" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← using AWB |
± اندرونی ربط/روابط |
||
سطر 4:
==تربیت و تعلیم==
فلم ہدایتکار فلم کی دنیا کے مختلف شعبوں سے آتے ہیں، کچھ لوگ پہلے فلمی عکاس یا تدوین کار ہوتے ہیں، کچھ سکرپٹ نویسی یا اداکاری سے تجربہ حاصل کر کے اس میدان میں جوہر دکھانے کیلئے آتے ہیں، جبکہ کچھ فلم
▲فلم ہدایتکار فلم کی دنیا کے مختلف شعبوں سے آتے ہیں، کچھ لوگ پہلے فلمی عکاس یا تدوین کار ہوتے ہیں، کچھ سکرپٹ نویسی یا اداکاری سے تجربہ حاصل کر کے اس میدان میں جوہر دکھانے کیلئے آتے ہیں، جبکہ کچھ فلم سکولوں سے آتے ہیں، مختلف ملکوں میں ہدایتکاروں کیلئے تعلیم کا عرصہ مختلف ہوتا ہے۔ لنڈن فلم سکول میں فلم ہدایتکاری کا کورس دو سال میں مکمل ہو جاتا ہے، کچھ سکولوں میں تین سال جبکہ کچھ سکولوں میں یہ عرصہ پانچ سال تک بھی ہوتا ہے۔دنیا کے تقریباََ تمام ممالک میں فلم ہدایتکاری یا دیگر شعبوں کیلئے سکول ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان ابھی تک اس سہولت سے محروم ہے۔
==پاکستانی فلم==
[[پاکستان]] میں جہاں فلم
▲پاکستان میں جہاں فلم سکول نہیں ہے، وہیں فلمی صنعت میں غیر تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہونے کی وجہ سے معیاری کام نہیں ہو سکا۔ تجارتی سینماسے تعلق رکھنے والے ہدایتکاروں کے ہاں فنی بصیرت تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت دنیا میں اپنا نام نہیں کر سکی۔ پاکستانی فلم کی کہانی ابھی تک ہیرو، ہیروئن اور ولن کی مثلث سے باہر نہیں نکل سکی۔ ماضی میں گو کچھ اچھا کام ہوا ہے لیکن فنی طور پر اسے بھی کچھ زیادہ سراہا نہیں جا سکتا۔ پاکستانی سنجیدہ سینما کے حوالے سے ہچاس کی دہائی میں اختر نواز جنگ کاردار (اے جے کاردار) کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے جاگو ہوا سویرا نام سے ایک فلم بنائی جو ملک میں تو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن اسے بین الاقوامی طور پر پذیرائی ہوئی، اس فلم نے ماسکو کے فلمی میلے سے بہترین عکاسی کا اعزاز بھی جیتا۔ اے آر کاردار کی دوسری فلم " دور ہے سکھ کا گاؤں" جھگڑوں کی نذر ہو گئی، تیسری فلم " قسم اس وقت کی" بھی کامیاب نہ ہو پائی۔
▲ستر کی دہائی میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کے نام سے ادارہ قائم ہوا جس کا مقصد ملکی فلمی کی ترویج اور وسائل مہیا کرنا تھا، لیکن بھٹو حکومت کے جانے سے وہ ادارہ بھی بے اثر ہو گیا۔
پچھلے چند سالوں سے جہاں پاکستانی تجارتی سینما تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے وہیں چند پڑھے لکھے ہدائتکار بھی سامنے آئے ہیں جن میں وزیر اطلاعات [[جاوید جبار]]کی بیٹی [[مہرین جبار]]کا نام آتا ہے جن کی فلم [[رام چند پاکستانی]] کو بیرون ملک خاصا سراہا گیا ہے. جاوید جبار خود بھی ستر کی دہائی میں بی آنڈ دی لاسٹ ماؤنٹین (Beyond the last mountain) نامی فلم بنا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ جمیل دہلوی صاحب نے بلڈ آف حسین (Blood of Hussain)نامی فلم بنائی جو کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر پائی۔ پاکستانی فلم کے حوالے سے دوسرا نام [[شعیب منصور]] کا لیا جاتا ہے جن کا بنیادی تعلق تو پاکستان ٹی وی سے تھا لیکن انہوں نے اپنی پہلی ہی فیچر فلم [[خدا کے لیے]]سے سب کو چونکا دیا، ان کی دوسری فلم [[بول]] بھی بہت زیادہ پسند کی گئی۔
دستاویزی فلم کے حوالے سے [[شرمین
[[زمرہ:فلم سازی پیشے]]
|