"عبد النبی شامی نقشبندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
{{مختصر دیباچہ|date=ستمبر 2016}}
'''عبد النبی شامی نقشبندی''' ([[1619ء]] – [[1733ء]]) [[سلسلہ احسنیہ مجددیہ]] کے جلیل القدر بزرگ تھے۔<ref>عبد الحي الحسني: الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام، الجزء السادس، دار ابن حزم، بيروت، 1999م: صفحة 758</ref> [[پنجاب، بھارت|پنجاب]] کے [[ہوشیار پور]] میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مروجہ علوم کی تحصیل مسلمان علماء اور صوفیا سے کی اور شاہ عبد الوھاب قادری کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ [[سید آدم بنوری]] کے خلیفہ [[حاجی عبد اللہ سلطان پوری]] سے بیعت ہوئے، اور [[سید حاجی محمد طاہر عالم پوری]] سے خرقۂ خلافت پہنا۔ اپنے علاقہ میں دعوت و تبلیغ کی محنت کی، سیکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اپنے زمانے کے جلیل القدر اور قوی النسبت نقشبندی صوفی تھے۔ [[سلسلہ احسنیہ مجددیہ]] کے مطابق تعلیم دینے میں ان کو کمال حاصل تھا۔ ان کے مکاتیب کا مجموعہ بہت مشہور ہے۔ بیشتر مکتوبات تصوف و الہیات کے بارے میں ہیں جن میں اللہ تعالی کی ذات و صفات، جمال و جلال، شاہد و مشہور، غیب و حضور، نور و ظلمت، وحدت الوجود اور وحدت الشہود، جبر و قدر، تقلید و تحقیق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ ہیں، ان موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، نیز [[سلسلہ احسنیہ مجددیہ]] کے طریقۂ تربیت و سلوک کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
 
== ولادت و قبول اسلام ==
سطر 22:
== سلوک و احسان اور دعوت و ارشاد ==
[[سلسلہ احسنیہ مجددیہ]] کے بانی [[سید آدم بنوری]] کے مشہور خلیفہ [[حاجی عبد اللہ سلطان پوری]] سے بیعت ہوئے۔ حاجی عبد اللہ نے عبد النبی شامی کو مزید تعلیم اور تربیت کے لیے اپنے خلیفہ [[سید حاجی محمد طاہر عالمپوری]] کے سپرد کیا۔ عالمپوری کے یہاں ایک مدت تک وہ ٹھہرے اور ذکر و اشغال میں لگے رہے۔ ان سے خرقۂ خلافت پہننے کے بعد اپنی بستی واپس آئے۔ اور دعوت و تبلیغ اور ارشاد و تربیت کا کام شروع کر دیا۔ ان کی دعوت و تبلیغ اور سعی پیہم کے نیتجہ میں ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔<ref>مجموعۃ الاسرار مکتوبات شریف حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی، اشاعت: لاہور، اپریل 1986ء، صفحہ 11۔</ref> ان کے سوانح نگاروں نے بہت سی کرامتیں ان سے منسوب کی ہیں، لیکن ان کی سب سے بڑی کرامت خود ان کی شخصیت تھی۔ جو ان کے پاس آتا، ان کا ہو جاتا۔ ہزاروں افراد ان کے حلقہ میں شام ہوئے، سینکڑوں کو باقاعدہ تربیت دی، سینکڑوں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
 
عبد الحی حسنی نے {{ع}}"الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام"{{ڑ}} میں لکھا ہے: