"ادریس بابر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م ←‏top: clean up, replaced: ← (2), ← (42) using AWB
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 54:
ادریس بابر اگر دیکھا جائے تو پچھلے بیس پچیس سالوں میں اپنے شعری سفر کا آغاز کرنے والوں میں امکانات،تجربات اور تخلیقی وفور کے اعتبار سے ایک بہت ہی اہم اور نمایاں شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں ادریس بابر کی غزل کو اگر بغور دیکھا جائے تو اسلوبیاتی سطح پر اس کی غزل کے اشعار ہمعصر منظر نامے میں شناخت کیے جا سکتے ہیں اور اس کی بنیادی وجوہات میں ایک اہم وجہ اس کے مصرعے کی منفرد اور مخصوص بنت ہے اس کے مصرعے ٹوٹ کر وقفے اور ٹہرااؤ سے ترتیب پاتے ہیں پھر ایک ہی مصرعے میں ایک سے زیادہ امیجز کو بافت کا حصہ بنانا اور ان سے ایک ہی مصرعے میں استفہامیہ تخلیق کر کے ان کا جواب بھی فراہم ہوتا نظر آئے یہ چیز معاصر غزل میں ادریس بابر کے علاوہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں ملتی ہے
ادریس بابر کی غزل کا دوسرا اہم پہلو جو اس کی پہلی کتاب ''یونہی'' اور اس کے بعد زیر ترتیب کتاب ''ایک ہزار ایک دن'' کی چند مطبوعہ غزلوں سے بر آمد ہوتا ہے وہ داستانوی رنگ ہے اس کی غزل ہماری روایتی غزل کی روایت سے ہٹ کر ایک الگ داستانوی فضا تخلیق کرتی نظر آتی ہے جس کی ایک جہت میری ذاتی رائے میں کس حد تک حالیہ جدید افسانوی اسلوب'' میجیکل ریلزم'' کے علاقے سے بھی سیر کراتی محسوس ہوتی ہے
ادریس کے ہاں ماضی کی بازیافت کا عمل اس کے تخلیقی کرب سے نمو پذیرپزیر ہوتا ہے اور یہ تخلیقی کرب آگے چل کر اسے ما بعد جدید عہد کی نمائندہ غزل میں ایک ایسے کلامیہ کی طرف قاری کو متوجہ کرتا ہے جو خالص تخلیقی واردات سے بحث کراتا ہے
موجودہ مابعد جدید عہد میں زندگی اور کلچر کے نقوش کو اپنی تخلیق کا حصہ بنا کر اس میں لسانی اور شعری جمالیات کی تجریدی ،ابہامی اور امکانی صورتوں میں اس قدر تنوع آپ کو ادریس بابر کے علاوہ معاصر عہد میں کسی کے ہاں نہیں ملے گا ۔ملال اور احساسِ تنہائی آج کے انسان خصوصا ایک حساس تخلیق کار کے ہاں جس شدتِ اظہار کا متقاضی ہے ادریس بابر کی غزل اس کا ایک عمدہ اظہاریہ ہے
ایک اور چیز جو ادریس بابر کی حالیہ غزلوں میں دیکھی جا سکتی ہے کہ وہ دو متوازی اسالیب کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہے ہیں ایک طرف ان کی مخصوص داستانوی فضا جہاں قاری کو گرفت میں لیتی ہے وہیں وہ ما بعد جدید عہد کی لفظیات کو بھی غزل لاتا ہے اور کہیں نہ کہیں ہماری نئی غزل کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرا تا ہے