"ارتقائی حیاتیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← (146), ← (2) using AWB
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 1:
{{حیاتیاتی ارتقا}}
'''ارتقائی حیاتیات''' {{دیگر نام|انگریزی=Evolutionary biology}} [[حیاتیات]] کی ایک ذیلی شاخ ہے جس میں ان [[نظریۂ ارتقا|ارتقائی طریقہ ہائے کار]] کے اصول و قوانین مطالعہ کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ [[زمین]] میں [[حیاتی تنوع]] وجود پذیرپزیر ہوتا ہے۔ جو افراد اس موضوع کے ماہر ہوتے ہیں انھیں '''ماہرین ارتقائی حیاتیات''' کہا جاتا ہے۔
 
==نظریہ ارتقاء==
یہ دونوں تصورات کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں جامد ہے، تمام مخلوقات شروع سے اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور ان میں کوئی باہمی رشتہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ارتقاء ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ زندگی اپنے آغاز سے لے کر اب تک پیہم ایک سلسلہ ارتقاء میں سفر کر رہی ہے اور ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اور آئندہ بھی اس طرح کی تبدیلی اور تغیر جارہی رہے گا۔ نہایت قدیم زمانے سے مفکرین اور سائنس دان کہتے رہے ہیں۔ ارتقاء کا یہ نظریہ [[چارلس ڈارون|ڈارون]] نے پہلی دفعہ پیش نہیں کیا، بلکہ اس سے بہت پہلے ارتقاء کی حقیقت کی جانب اشارات ملتے ہیں۔ مثلاً [[قدیم یونان|قدیم یونانی]] مفکر، فلسفی اور ماہر فلکیات [[ہیراقلیطس]] (Heraclitus) کا نظریہ تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں مسلسل تغیر پذیرپزیر ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ زیادہ تر اہل فکر [[لوگوس]] (Logos، لفظی معنی عقل، تعقل، خیال، کلام، رائے وغیرہ، مراد قانون کائنات) کو نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ [[کائنات]] کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ ’ قانون کائنات ‘ کے ذریعہ کائنات کی تمام چیزیں آپس میں مربوط ہیں اور اسی قانون کے تحت تمام قدرتی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اسی قانون کا ایک اہم مظہر یہ ہے کہ دو متعضاد چیزوں میں ایک اندرونی رشتہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً صحت اور بیماری ایک دوسرے کا تعین کرتے ہیں۔ نیکی اور بدی سرد و گرم ایک دوسرے کے بغیر اپنا مفہوم کھو دیں گے۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز کے دو متعضاد پہلو ہو سکتے ہیں۔ مثلاً سمندر کا پانی نقصان دہ بھی ہے ) انسانوں کے لےے ( اور مفید بھی۔ ) مچھلیوں کے لیے ( اس کا کہنا تھا کسی کیفیت یا چیز کا ثبات و دوام ظاہری، سطحی اور عارضی ہے۔ جب کہ تغیر اصلی اور ابدی حقیقت ہے۔ ایک اور یونانی فلسفی اناکسی مینڈ جو فلکیات کا بانی سمجھا جاتا ہے، اس کا خیال تھا مٹی، ہوا، آگ اور پانی سے ہی امتزاجات اور افتراقات سے لا تعداد دنیائیں جنم لیتی ہیں اور پھر تباہ ہوجاتی ہیں اور یہ سب کچھ لامتناہی طور پر جاری رہتا ہے۔ اس یہ خیال تھا کہ انسان مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق سے ترقی پا کر وجود میں آیا۔ اس طرح مسلمان مفکرین کی تحریروں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ خاص کر ان مسکویہ تحریروں میں۔ لیکن ان مسکویہ اور دوسرے مفکرین انسان کا قریبی
رشتہ دار گھوڑے کو ٹہرایا ہے۔ اس طرح اس کا ذکر اخوان صفاء کی تحریروں میں ملتا ہے، لیکن بہت الجھا ہوا۔
 
سطر 57:
مچھلیاں تھیں۔ لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی باقیدہ کوئی ہڈی نہیں تھی ۔بلکہ پتلے سے دھاگہ کی طرح تھی، جو گوشت کے ریشوں سے قدرے سخت تھی۔
 
رفتہ رفتہ ان میں غضروف یعنی مرمری ہڈی ( نرم ہڈی ) کا ڈھانچہ نمودار ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے ہڈیوں والا ایسا جسم نمودار ہوا اور جس کا جبڑا بھی تھا اور دو اور دو کی تعداد میں خارجی اعضائ بھی تھے۔ یہ تھی ہڈیوں اور جبڑے والی قدیم مچھلی۔ اس کا زمانہ وجود تقریباًً 45 کروڑ سال پرانا ہے۔ ان مچھلیوں کے کچھ پتھرائے ہوئے ڈھانچے دستیاب ہوئے ہیں۔ جو کہ 45 کروڑ سال پرانے ہیں۔
 
آج کل کی کئی سمندری مچھلیاں مثلاً پھیپھڑے دار مچھلیاں، ریڑھ دار، پنکھ والی مچھلیاں اور گوشت دار پنکھ والی مچھلیاں اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گوشت دار مچھلیوں کے ایسے اعضائ تھے جو بعد میں بازوؤں اور ٹانگوں میں تبدیل ہونے کی بنیاد بنے ۔