"افراط زر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 1:
افراط زر (Inflation) [[زری معاشیات]] کی اہم اصطلاح ہے۔ تعریف کے مطابق کسی معیشت میں موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ تاہم ہر معیشت میں کم و بیش افراط زر کی موجودگی قدرتی امر ہے ۔ یہ اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ رہتا ہے۔ تاہم دیوالیہ معیشتوں میں افراط زر ہزار فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ اسکواس کو معقول حدود میں رکھنا [[مرکزی بینک]] کا بنیادی وظیفہ ہے۔<br />
افراط زر کی بنیادی وجہ حکومت کا اپنی آمدنی بڑھانے کے لیئے لیے زیادہ نوٹ چھاپنا ہے۔
 
== تفریط زر سے افراط زر==
سطر 13:
غیر جانب دارممالک میں نوٹوں کی گردش میں اضافہ کا باعث وہ موافق توازن تجارت تھا، جو محارب ملکوں کے متوازن سے پیدا ہوا تھا۔ محارب ملکوں میں جنگ کے اخراجات کا بڑا حصہ جنگی قرضوں سے پورا ہوا تھا۔ ان جنگی قرضوں کا اجرا نہیں ہوتا تو محارب ملکوں میں جنگ کے اختتام پر دوران گردش نوٹوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔ 1929 سے1933 کا زمانہ شدید کسادبازاری اور بیکاریUnemplyment کا زمانہ تھا۔ اس کسادبازاری کے دور میں قرض کو سہل الحصول بنانے کے لیے دوران گردش زر کے اضافے کے ساتھ ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور برطانیہ میں مرکزی بینک کی شرح سود بھی گھٹادی گئی تھی، لیکن سرمایا کار اس ارزاں مالی پالیسی کے باوجود کوئی فائدہ نہیں اٹھارہے تھے۔
گردش زر کی اس کثرت کے باعث رسد زر Money Supply پرقابو پانے کے عام زرائعذرائع اور مرکزی بینک کی شرح کٹوتی کی کارستانی غیر موثرہو کر رہ گئی۔ ڈیکاک Dekok مزید لکھتا ہے کہ تقریبأئ 1933
سے مرکزی بینک کی شرح کٹوتی کی کارستانی کے زوال کا اصلی سبب قریب قریب ہر ملک میں زر کی سیالی کیفیت کا وجود رہا ہے جس کے اسباب مختصر طور پر حسب ذیل ہیں۔
 
سطر 44:
پروفیسر ہن سن Hansen Pro جیک وائیر Jacob Viner کے ایک مضمون ’کیا ہم افراط زر کو روک سکتے ہیں Can we chech inflation ’جو پیل یونیور سٹی‘ کے پیل ریویو میں شائع ہوا تھا لکھتا ہے کہ اپنی دستوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار تلاش کرنا چاہیے، جو صیضہ منتظمہ کو اس بات کا مجاز کرے کہ وہ کانگریس کے تفویض شدہ خصوصی اختیارات کے تحت فوری فیصلے و اقدامات کرسکے۔ اس پروگرام کے دستوری اجزائے ترکیبی پر تفصیلی روشنی ڈالنے کا یہ موقع نہیں ہے، لیکن جن باتوں پر زور دینا چاہتا ہوں۔ ان میں کانگریس کے وضع کردہ اصول کی مطابقت سے صدر کو شرح محصول میں تغیر کرنے کا اختیار تمیزی حاصل ہونا اور وسیع اساس پر بینکوں کے افزائش زر کے اختیار کو منضبط کرنے کے لیے وفاقی محفوظ بینک کے افسروں Federal Reserve Authorities کے اختیارات میں توسیع کرنا ہیں۔ اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے پرفیسر ہن سن لکھتا ہے ’جس طرح کانگریس نے (قانونی حدود کے اندر) منتظمہ کو محصول درآمد برآمد کے رد وبدل کا اختیار دیا ہے اور جس طرح کانگریس نے قانون وفاقی محفوظ بینک کے تحت جو مالی افسران کو (مقنہ کی حدود کے اندر) بینکوں کے محفوظ تناسب کو گھٹانے بڑھانے کے اختیارات دیئے ہیں، اسی طرح یہ بہت ضروری ہے کہ کانگریس کی حدود متعینہ کے اندر منتظمہ کو شرح انکم ٹیکس کے رد وبدل کا اختیار دیا جائے‘۔
 
بادی النظر میں ٹیکس کے ذریعے افراط زرکو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ٹیکس مالیاتی پالیسی کا اہم جز ہیں اور حکومت ان کی وصولی سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔ مگر یہ حقیقت پیش نظررکھنی چاہیے کہ ٹیکس صرف حکومتی اخرجات پورے کرنے کے لیے نہیں لگائے جاتے ہیں۔ بلکہ کسی بھی حکومت کی مالیاتی پالیسی میں دوسرے مقاصد بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ خاص کر کسی معاشرے کی ضروریات اور سیاسی محرکات شامل ہوتے ہیں۔جس میں معاشرے کے کسی خاص طبقے یا کسی خاص علاقے کے علاوہ کسی خاص صنعت یا سرپرستی یا کسی خاص اشیاء پرکنٹرول کے لیے بھی خاص ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح بیرونی تجارت میں برآمد کے لیے خاص چھوٹ دی جاتی ہے کہ برآمد کی حوصلہ افزائی ہو، یا بعض اشیاء کی بیرون ملک برآمد کو رکنے کے لیے ان پر ٹیکس میں اضافہ کردیا جاتا ہے کہ ان کی برآمد شکنی ہو اور ملک کے اندر ان کی قلت نہ ہو۔ اس طرح درآمد پر بھی کسی چیز کی قلت کے پیش نظر اس کو چھوٹ دی جاتی ہے۔ گویا حکومت ٹیکسوں کے زریعےذریعے صرف اپنے اخراجات ہی نہیں برداشت کرتی ہے، بلکہ اس کے زریعےذریعے معاشیات کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔
اگرچہ چند ٹیکس جن میں انکم ٹیکس ا ور پراپرٹی ٹیکس شامل ہیں،جو ادائیگی کرنے والے خاص طبقے پر اثر انداز ہوتے ہیں کے علاوہ اکثر ٹیکس ان اشیاء یا صنعتوں پر لگائے جاتے ہیں جن کا اثر معاشرے کے تمام