"افغان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← (2) using AWB
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 8:
پشتون مورخین کا دعویٰ ہے کہ افغان جلا الوطن یہود نسل سے ہیں۔ ظاہر ان کے دلائل تاریخ سے ماخذ ہی نہیں ہیں۔
سب سے پرنی شہادت ایک ایرانی کتبہ میں جو تیسری صدی عیسوی کا ہے۔ یہ کلمہ ابگان کی صورت میں ملتا ہے۔ پرفیسر احمد دانی کا کہنا ہے کہ کلمہ افغان، اوگان یا اباگان تیسری صدی عیسویں (عہد ساسانی) اور چھٹی صدی عیسویں میں ملتا ہے۔ ایرانیوں نے کلمہ افغان استعمال کرنا شروع کیا جو آج تک مروج ہے۔ ہندی ہیت دان ورمہ مہرہ کی کتاب برہت سیمتہ میں یہ کلمہ اوگانہ کی شکل میں آیا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد چینی سیاح ہیوانگ سانگ کی سوانح حیات میں یہ کلمہ ایپوکین (اوگن) کی شکل میں ملتا ہے جو کوہستان کے شمال میں آباد تھے۔ ابتدائی دور کی مسلمان مصنفوں کی کتابوں میں یہ کلمہ سب سے پہلے ’حدود العالم‘ (۳۲۳ھ/۲۸۹ء) میں ملتا ہے، اس کے بعد الُعتبی (تاریخ یمنی) اور البیرونی نے بھی ذکر کیا ہے۔ فریدون کے زمانے میں ایک مشہور اور نامور پہلوان اوگان تھا اور بہادر و دلیر لوگوں کو اس نام سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں مشہور بہادروں کو اوگان سے تشبیہ دی ہے۔ فردوسی نے اس کو اوغان اور ابن بطوطہ ان کا ذکر الافغان کے نام سے کرتا ہے۔ تیمور اپنی توزک میں اوغانیوں کا ذکر کیا ہے۔
قدیم ایران کے ہخامنشی خاندان کے بادشاہ دارا اول (چھی صدی عسوی) نے کتبہ نقش رستم میں خود کو ایرانی کا بیٹا اور آریا کی اولاد سے موسوم کیا ہے اس کتبہ میں آریہ کا تلفظ ’اُرِئی‘ ہے۔ یہی وجہ ہے میں میرا گمان تھا کہ افغانستان کے علاقہ میں ابتدا میں یہ کلمہ ’اُرِیَ‘ استعمال ہوا ہوگا اور بعد میں غان نسبتی کلمہ لگ کر اورغان ہوگیا اور کثرت تکرار سے ر خارج ہوگیا۔ اس طرح یہ کلمہ اوغان بن گیا جو کہ افغان کے لئے ابتدا میں استعمال ہوتا تھا۔ مگر میں ترکوں کے مطالع سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا ہونا یقینی نہیں ہے۔ یہ کلمہ اوغان اوغہ سے نکلا ہے جس کی ’گ‘ اور ’غ‘ سے مختلف شکلیں ہیں۔
حدود العالم ہے کہ ننہار (ننگر ہار) موجودہ جلال آباد کا بادشاہ اپنے کو مسلمان کہتا ہے اور تیس بیویاں رکھتا ہے جو کہ مسلمان، افغان اور ہندو ہیں۔ اس فقرے میں مسلمان کی تفریق معنی خیز ہے۔ اس جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ افغان مسلمانوں سے ہٹ کر ایک علحیدہ قومیت اور مذہب رکھتے تھے۔ کتاب الاغانی کی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے اور وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ اس لئے ساسانیوں کے زمانے میں غالباََ چھٹی صدی عیسوی میں ترک اس علاقہ کو فتح کرچکے ہوں گے۔
جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے۔ ان میں ایک قبیلہ غز تھا۔ جسے اغوز بھی پکارا جاتا تھا اور اسی نسبت سے بلاد اسلام میں ترکی النسل قبائل کو اغوز کہا جاتا تھا۔ اغوز یا غز ْقبیلے نے دوسرے ترک قبائل کے ساتھ غالباً چوتھی اور پانچویں صدی ہجری درمیان اسلام قبول کرلیا تھا۔
غالب امکان یہی ہے کہ افغانستان میں رہنے والے ترک قبائل جنہیں اوغوز (جمع کے صیفہ میں) اور فرد واحد کو اوغہ پکارا جاتا تھا۔ یہ اوغہ رفتہ رفتہ ان ترک قبائل کے لئے پکارا جاتا ہو گا جنہوں نے مقامی ثقافت، زبان اور مذہب اختیار کرلیا تھا۔ یہ کلمہ اوغہ جس کی جمع اوغان تھی رفتہ رفتہ تمام مقامی قبائل کے لئے پکاجانے لگا اور بعد میں یہ بھول گئے کہ یہ کلمہ ترک نژاد قبائل کے لئے یہ کلمہ استعمال ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے تمام پشتون قبائل کو افغان بولا جاتا ہے۔ آج بھی ہزارہ قبائل پٹھانوں کو اوغہ کہتے ہی۔