"امراؤ جان ادا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:ناول
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 22:
| followed_by =
}}
'''امراؤ جان ادا''' [[مرزا محمد ہادی رسوا]] لکھنوی کا معرکۃمعرکہ الآراآرا [[معاشریات|معاشرتی]] ناول ہے۔ جس میں انیسویں صدی کے لکھنو کی سماجی اور ثقافتی جھلکیاں بڑے دلکش انداز میں دکھلائی گئی ہیں۔ لکھنو اُس زمانے میں موسیقی اور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ رسوا نے اس خوب صورت محفل کی تصویریں بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے کھینچی ہیں۔ اس ناول کو ہمارے ادب میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ ”شرر“ کے خیالی قصوں اور نذیر احمد کی اصلاح پسندی کے خلاف یہ ناول اردو ناو ل نگاری میں زندگی کی واقعیت اور فن کی حسن کاری کو جنم دیتاہے۔ آئیے ناول کا فنی اور فکری جائزہ لیتے ہیں۔
 
== فنی جائزہ ==
سطر 55:
=== نواب سلطان ===
 
نواب سلطان کے کردار میں خاندانی وجاہت اور شرافت کا عنصر پایا جاتا ہے ٹھیک ہے وہ چھپتے چھپاتے ، اندھیرے میں امراؤ جان سے ملنے آتے ہیں ۔ جو کہ ایک بدی ضرور ہے لیکن انہیں اس کا احساس بھی ہے۔ نواب سلطان کے کردار میں ہمیں ایسا کردار نظرآتا ہے جو دوسروں پر اپنی شرافت و نیک نامی ثابت کرتا ہے ۔ بےشک بہت سی دیگر خصلتوں کے پیش نظر نواب سلطان ایک شریف انسان ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ طوائف کے کوٹھے پر جانا اُن کے کردار کا ایک بہت بڑا عیب ہے۔
 
=== نواب چھبن ===
سطر 62:
 
== پلاٹ==
ناول کا پلاٹ ، انتہائی رواں دواں سیدھا سادہ اور ہرقسم کی پیچیدگی سے مبرا ہے۔ کہانی کے سبھی حالات و واقعات ایک خاص تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے ظہور پذیرپزیر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور قاری کے ذہن پر مختلف نقوش ثبت کرتے رہتے ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں سے گزرتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے مختلف حالات و واقعات مختلف اوقات میں وقوع پذیرپزیر ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف مناظر اور نظارے پل بھر کے لئے بہار دکھاتے ہوئے گذرگزر جاتے ہیں مختلف زندگیاں مختلف کردار کی صورت میں اپنی اپنی بولی بول کر اوجھل ہو جاتی ہیں اور پڑھنے والا سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ جاتی ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں ایک ہی قصے کے باوجود بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو باہم مربو ط ہو کر ایک بڑی کہانی تشکیل دیتے ہیں۔امراؤ جان کے اغوا سے لے کر آخر تک تمام واقعات فنکارانہ مہارت و چابکدستی سے باہم منسلک کر دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول میں خرابی یا جھول محسوس نہیں ہوتا۔
 
==اسلوب==
سطر 78:
ناول نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے طوائف کا بالا خانہ بنا ہوا ہے۔ طوائفوں نے مختلف لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایک مخصوص منشور بنا رکھا ہے۔ وہ منشور”مسی “ کی رسم سے شروع ہوتا ہے۔ جو صرف اور صرف کوئی نواب ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ اور جس کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اور اس طرح معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کی قیمت خانم جیسی گھاک طوائف کے صندوق میں پہنچ جاتی ہے۔
 
ناول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لکھنو کی زوال پذیرپزیر معاشرت میں طوائفوں کا دور دورہ تھا۔ نوابوں کے محلوں اور عملداری پر طوائفوں کا سکہ چلتا تھا۔ نوابین سیر و سیاحت ، شکار اور کھیل تماشوں کے موقعوں پر طوائفوں کی فوج ظفر موج اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بڑی بری ڈیر ہ دار طوائفوں کا ساز و سامان نوابوں کے خر چ پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ نوابزادے بلکہ حرامزادے طوائفوں کے نخرے اٹھانے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے ۔طوائف اس وقت کی معاشرت میں اس قدر سرائت کر چکی تھی کہ طوائفوں کے کوٹھوں اور بالاخانوں کو تہذیب کا مرکز سمجھا جانے لگا۔ شرفاءاپنی اولاد کو گناہ کی ان بھٹیوں میں آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے۔ تاکہ وہ کند ن بن کر نکلیں ، لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ کندن کی بجائے گندے بن کر نکلتے تھے۔
 
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا لکھنو ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس ناول میں ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنی معاشرت اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ عظیم ادب وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ کےا آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کاروبار نہیں ؟ کیا آج ہمارے ہاں ہیرا منڈیاں ، شاہی محلوں ، نائٹ کلبو ں ، بیوٹی پالروں اور فلمی دنیا کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں ؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمار ے عہد کی ماڈل گرل اور اداکارہ میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں چنانچہ