"زرمبادلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
clean up, replaced: ← , ← (11) using AWB |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
||
سطر 5:
سونے کے بین الاقوامی لین دین میں استعمال ہونے کی وجہ سے دور جدید کے شروع میں ایک ملک کے سکے دوسرے ملک کے لئے بیکار تھے۔ کیوں کے وہ دوسرے ملکوں میں استعمال نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے ماہرین معیشت نے کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش کی کہ اپنا سونا باہر نہ بھیجیں بلکہ اس کے بدلے سامان تجارت بھیجیں۔ وہ سونا اور چاندہ چوں کے دنیا میں محدود تھے اس لیے وہ اس کے ذخائر محفوظ رکھنے کے خواہش مند تھے۔ اس لئے وہ ان کی بیرونی ممالک منتقلی سے بچانے کے لئے غور و فکر کیا جانے لگا۔
ہیوم Dived Hume نے [[اٹھارویں صدی]] میں یہ نظریہ پیش کیا، کہ اگر کوئی ادائیگی زیادتی میں ہو تو اس کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دینا چاہیے۔ یہ عدم
ہیوم Dived Humeنے دیکھا کہ وہ ممالک جو شروع میں محفوظ زر کو کاروبار میں لگا دیتے ہیں اور اپنی قیمتوں کو کم کرکے بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا مقام بنالیتے ہیں، وہ غلط نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی بین الا قوامی مارکیٹ برابر بڑھتی رہتی ہے اور یہاں تک کہ ادائیگیوں کا توازن ان کے حق میں ہوجاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں مقام بنانے کے لیے یہی طریقہ کار ہونا چاہیے۔
ایک خاص موقع پر جہاں قانون رسد و طلب نے اپنی اہمیت کو واضع کیاہے، بین الاقوامی تجارت کے لئے غیر ملکی زر مبادلہ کی کرنسی کی قیمت کا نظریہ ہے۔ جب بین التجارتی ملک کی کرنسی کا معیار سونا تھا، تب کسی ملک کی کرنسی کی شرح مبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی یا سکے کی مقابلے میں وہ نسبت تھی جو اس ملک میں سونے کی مقدار کو دوسرے ملک کے سکہ میں سونے کی مقدار سے (سونے کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانے کے اخراجات کو مہیا کرکے)۔ ریکاڈو Ricardo (1772۔ 1823) نے بین الاقوامی تجارت کا سبب ایک چیز کی مختلف ممالک میں مختلف قیمتیں ہونا بتایا اور قیمت
[[پہلی جنگ عظیم]] کے بعد معاشین کو معلوم ہوا کہ ریکاڈو Ricardo کا نظریہ بہت سے حقائق کی وضاحت نہیں کرسکتا ہے، اس لئے انہوں نے اسے نظر اندازکر دیا گیا۔ سوئیڈن کے اوہلن Ohlin اور امریکہ
سطر 17:
Edgegeworth نے اپنے ایک مضمون ”بین الاقومی قیمتوں کا خالص نظریہ“ میں یہ خیال ظاہر کیا کہ جیون Jevon کے نظریہ مبادلہ Theory of Exchange اور مارشل کے پیش کردہ نظریہ ”رسد و طلب کی طاقتوں میں توازن“ سے بین الاقوامی تجارت کے بنیادی اصول وضع کئے جاسکتے ہیں۔ جو توازن کا نظریہ کہ بہت سے معاشیاتی مسائل کی تہہ میں موجود ہے۔ توازن رسد و طلب کے اس نظریہ نے برطانوی اور امریکی معاشین کے نظریات برائے بین الاقوامی تجارت میں رسوخ حاصل کرلیا۔ حتیٰ 1933 میں برطانیہ کی رائل اکنامک سوسائٹی Royal Ecnomice Sosity کے اجلاس کے میں ایڈون کینن Edwin Cannan نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ریکارڈو Ricardo کے وقت سے اس وقت سے اس وقت تک خاص غلطی یہ ہوئی ہے، کہ وہ بین الاقوامی تجارت کے لئے جو نظریہ قائم کرتے ہیں وہ اس نظریہ سے بہت مختلف ہوتا ہے جو کوئی ملک اپنی اندرونی تجارت کے لئے اختیار کرتا ہے۔ اس نے اس کے بعد یہ مان لیا گیا کہ شرح زرمبادلہ کا دارو مدار کسی ملک کی کرنسی کی طلب و رسد یا اس کے توازن ادائیگی Balance of Payments پر ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اندرونی تجارت کا نظریہ جو جیون Jevon اور مارشل نے پیش کیا تھا کہ اصول رسد و طلب یا مسابقت Competition ہی اشیاء کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ 1933 مختلف ملکوں کی کرنسیوں کے شرح مبادلہ کے لئے بھی یہی نظریہ قبول کرلیا گیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں اصول و رسد و طلب کی ایک اور بڑی فتح تھی۔
[[دوسری جنگ عظیم]] میں محاربہ ممالک نے جنگ کی تیاری کی وجہ سے پیداشدہ توازن ادائیگی Balance of Payments کی غیر متوازنیت کے مد نظر غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول نافذ کردیا تھا اور وہ اپنے اپنے ملک کی شرح مبادلہ زر مقرر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاہم یہ بہت افسوس کی بات ہے لڑائی کے نو سال کے بعد بھی غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول ابھی (جب یہ تحریر لکھی گئی تھی) تک نافذ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک دنیا جنگ کے تباہ کن اثرات سے سنبھل نہیں سکی اور محاربہ ممالک کے توازن
امریکی حکومت نے اس ذیل میں ایک کمیشن مقرر کیا اور امریکی صدر آئرن ہاور کے سامنے کچھ تجاویز پیش کیں۔ جن پر امریکی حکومت دیگر ممالک کو ڈالر حاصل کرنے میں سہولتیں مہیا کرسکے۔ کمیشن نے مارچ [[1954ء]] میں اپنی تجاویز پیش کیں۔
سطر 43:
جون 1950 تک یہی سلسلہ جاری رہا، پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کا بوجھ جوٹ اور روئی پر پڑا تھا۔ تین مہینے کے بعد کوریا کی جنگ چھڑ گئی،جس سے بازارچڑھ گیا اور روئی اور جوٹ کی قیمتیں چڑھ گئیں اور جوٹ بورڈ جوجوٹ کی نرخوں کو سہارا دینے کے لئے مالی مدد دے رہا تھا۔ اس نے ایک کروڑ روپیہ کا منافعہ کما لیا اور پاکستان کی برآمد 1950-49 88 کروڑکے مقابلے میں یہ رقم 1950-51 ۵۰۲ کروڑ تک پہنچ گئی۔
1951 میں جب کوریا کی جنگ ختم ہوئی تو روئی اور جوٹ کی قیمتیں گر نے لگیں۔ جوٹ کا بورڈ کام کررہا تھا، اس کے نقصان کا
چکی تھی۔ اس لئے 1953-54 کے بجٹ میں ۴۱ کروڑ روپیہ اس کے نقصان کی مد میں دکھائی گئی اور پاکستان کی برآمد 128 کروڑ کی ہوئی۔ جب کہ سخت درآمدی پابندیوں کی وجہ سے ۳۱ کروڑ کا موافق توازن تجارت رہا۔ 1953-54 برآمد 122 کروڑ روپیہ کی ہوئی، جب کہ مندرجہ بالاسبب کے باعث ۹کروڑ کا موافق توازن تجارت ہوا۔ اگست 1955 کو پاکستانی کرنسی کی قدر میں تیس فیصد کم کردی گئی، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور پاکستانی برآمد کوسات سال عرصہ میں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
|