"سلطنت اشکانیان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 78:
 
==امراء==
اشکانی عہد میں اکثر ستراپیوں نے نیم آزادی حاصل کرلی تھی۔ بادشاہ ان کے داخلی معاملات میں کم ہی دخل دیتا تھا۔ اور ان کو اپنے طور پر زندگی بسر کرنے کی آزادی تھی، مگر سیاسی معملات میں وہ بادشاہ کے ماتحت تھے۔ اشکانی بادشاہوں نے انہیں آزادی دے رکھی تھی۔ ممکن ہے انہوں نے مرکزی حکومت کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اس نظام کو گوارہگوارا کرلیا اور اس پر اکتفاکیا کہ ماتحت سٹراپیاں انہیں مقرر خراج اور وقت ضرورت پر فوج فراہم کردیا کریں۔ یہی وجہ ہے مسعودی نے اشکانیوں کے دور کو طواف الملوک میں شمار کیا ہے۔ گبن Gibbon کا خیال ہے پارتی نظام یورپ کے جاگیرداری نظام سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اشکانی عہد میں صوبہ داروں کو ویتا کسا Vitaxa کہتے تھے
 
==عسکری==
سطر 86:
'''معاشرہ اور ثقافت''' ملبوسات کے حالات کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس قدر پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ فوجی ملازمت پسند کرتے تھے۔ شکار ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شکار کئے ہوئے جانور ان کی خوراک کا اہم حصہ تھے۔ شراب نوشی کا رواج عام تھا۔ شراب عام طور پر انگور کھجوروں سے کشید کی جاتی تھی۔ بانسری اور نقارہ ان کا پسندیدہ ساز تھے۔ رقص ان کی بڑی تقریب تھی۔ یہاں کے لوگ لمبے لمبے چوغے پہنتے تھے، جن کے ساتھ لمبے لمبے جیب ہوتے تھے۔ لباس کے رنگ مختلف ہوتے تھے۔ بعص کی پوشاکوں پر زری کا کام ہوتا تھا۔ ان کے بال عموماََ گھنگرویالے ہوتے تھے اور ڈاھاڑھیاں بھی رکھتے تھے۔ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 309) ایرانیوں میں سالانہ جشن منانے کا رواج رہا ہے، خصوصاً موسم بہار میں نوروز کا اور اور خزاں میں قہرگان کا جشن بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور ایک دوسرے کو تحفہ تحائف بھیجتے تھے اور پر تکلف دعوتیں کرتے تھے۔ بیٹیوں کی پیدائش نامبارک خیال کی جاتی تھی۔ پانج سال تک کا بچہ ماں کی نگرانی میں رہتا تھا اس کی تعلیم و تربیت کا بار باپ ذمہ ہوتا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 167)
==فن تعمیر==
اشکانی عہد کی تعمیرات کے نشانات بہت کم دریافت ہوئے ہیں۔ یونانی روایات کے مطابق انہوں ایک شہر ہیکاتم پیلس آباد تھا جو اوئل میں ان کا دارلحکومت تھا، مگر اب تک اس کا تعین نہیں ہوسکا۔ اس کا محل وقوع کا تعین ہوجائے تو اس کی کھدائی سے شاید ان کے تعمیرات پر کچھ روشنی دالی جاسکتی تھی۔ ان کی یادگاروں میں دریائے دجلہ کے کنارے الخصر کے مقامات پر محل کے کھنڈراتکھنڈر ملے ہیں، جن کی بنیادیں تو ایرانی طرز کی ہیں لیکن محرابیں رومی انداز کی معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کنگادر اور ہمدان میں معبدوں کے چھوٹے کمرے ہیں، ان کمروں کے بعد مربع شکل کے تین کمرے ہیں جن کے اوپر بیضاوی قبے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی معتدد کمرے ہیں جن کا طول عرض مختلف ہے۔ تنرئین کے لیے اس پر سرخ پلاسٹر کیا ہوا ہے۔ اس طرح فروز آباد کے قریب سروستان Sarvitan میں اس طرح کا ایک محل ہے۔ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 180 تا 181)
 
==تجارت==
سطر 135:
 
==زراعت==
تمام پیشوں میں زراعت کا پیشہ ایرانیوں کے نذدیک سب سے مقبول اور محبوب تھا۔ یہ ایک مذہبی بیشہ تھا، جسے زرتشت نے مبارک بتایا تھا اور لوگوں کو اس کو اختیار کرنے کی ہڈایت کی تھی۔ چونکہ دین و دنیا کی دولت انحصار اس پر تھا، اس لیے اس کو ترقی دینے کی خاطر خواہ کوشش کی گئی۔ ملک دریاؤں کی کمی تھی اس کے لیے کاریزین نہری نظام کے زریعہذریعہ پورا کیا گیا۔ باوجود اس اہمیت کے اشکانی عہد کا زرعی نظام دوسرے ملکوں سے مختلف نہیں تھا۔ زمین بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر داروں کے درمیان بٹی ہوئی تھی، جن پر ان کو مالکانہ حقوق حاصل تھے۔ وہ حکومت کو مقرر لگان ادا کرکے تمام امور سے آزاد ہوجاتے تھے۔ ان زمین کو آباد کرنے کے لیے غلاموں اور ہاریوں کا ایک طبقہ موجود تھا، جو دائمی طور پر ان سے وابستہ ہونے کے باوجود اس سے مستفید ہونے کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا، صرف زندہ رہنے کے لیے ہی کچھ اندوختہ حاصل ہوجاتا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 186۔ 187)
 
==حدود==