"سندھ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 75:
}}
 
'''سندھ''' ({{lang-sd|{{عرب سکرپٹ|سنڌ}}}}) [[پاکستان]] کے [[پاکستان کے صوبے|چارصوبوں]] میں سے ایک صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبان [[سندھی زبان|سندھی]] اور صوبائی دارالحکومتدار الحکومت [[کراچی]] ہے۔
 
==[[وجہ تسمیہ]]==
سطر 105:
== تاریخ ==
[[تصویر:Sindh-Map.PNG|thumb|250px]]
زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے ۔ دراڑویوں نے تقریباًً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ [[موہن جوداڑو]] کے کھنڈراتکھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنہوں نےپانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی، اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میں شاہرایں پختہ تھیں، اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہوگئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائےسرسوتی اور دریائے گنگا کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نے [[ہندوستان]] کے [[مذہب]]، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
 
'''سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر'''<ref>یہ الگ مضمون ہے، مہربانی کر کے اسے الگ ہی رکھیں۔</ref>
سطر 114:
حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے۔
 
جسکےجس کے مولّف ہیں سید حاکم علی شاہ بخاری۔
 
مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔
 
ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنھیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خودبخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈرات،کھنڈر، پراچین بھارت کے مندر اور جنوبی امریکہ میں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔
 
سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کےلئے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
سطر 128:
گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کی مسجد جو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اسکی تعمیرِ نو ہوئی ہے
 
کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کےلئے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کہ کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔
 
== سندھ کی انتظامی تقسیم ==