"زحل" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
م Reverted to revision 2074702 by Obaid Raza on 2016-05-29T04:39:14Z |
||
سطر 5:
زحل، یورینس، نیپچون اور مشتری کو مشترکہ طور پر گیسی دیو بھی کہا جاتا ہے۔ ان سیاروں کو مشتری نما بھی کہا جاتا ہے۔ زحل کا مدار زمین کے مدار کی نسبت 9 گنا بڑا ہے۔ تاہم اس کی اوسط کثافت زمین کی کثافت کا آٹھواں حصہ ہے۔ تاہم کمیت میں یہ سیارہ زمین سے 95 گنا بڑا ہے۔
زحل کی کمیت اور نتیجتاً اس کی کششِ ثقل کی وجہ سے زمین کی نسبت زحل کے حالات بہت شدید ہوتے ہیں۔
زحل کے گرد نو دائرے ہیں جو زیادہ تر برفانی ذرات سے بنے ہیں جبکہ کچھ پتھر اور دھول بھی موجود ہے۔ زحل کے گرد 62 چاند دریافت ہو چکے ہیں جن میں سے 53 کو باقائدہ نام دیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ چاند نما اجسام بھی ان دائروں میں موجود ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ زحل کا سب سے بڑا چاند ٹائیٹن ہے اور یہ ہمارے نظامِ شمسی کا دوسرا بڑا چاند ہے۔ یہ چاند عطارد سے بڑا ہے اور ہمارے نظام شمسی کا واحد چاند ہے جہاں مناسب مقدار میں فضاء موجود ہے۔
سطر 11:
کم کثافت، تیز رفتاری اور مائع حالت کی وجہ سے زحل چپٹا دائرے نما ہے۔ اس وجہ سے قطبین پر زحل پھیلا ہوا جبکہ خطِ استوا پر باہر کو نکلا ہوا ہے۔ دیگر گیسی دیو بھی اسی شکل کے ہیں۔ زحل ہمارے نظامِ شمسی کا واحد سیارہ ہے جو پانی سے کم کثافت رکھتا ہے۔ زحل کا وزن زمین سے 95 گنا زیادہ ہے۔
=== اندرونی ڈھانچہ ===
زحل کے اندرونی ڈھانچے کے بارے براہ راست کوئی معلومات نہیں لیکن
=== فضاء ===
زحل کی بیرونی فضاء میں 96.3 فیصد ہائیڈروجن اور 3.25 فیصد ہیلئم ہے۔ انتہائی معمولی مقدار میں امونیا، ایسیٹیلین، ایتھین، فاسفین اور میتھن بھی پائی جاتی ہیں۔ زحل کے بالائی بادل زیادہ تر امونیا کی قلموں سے بنے ہیں جبکہ زیریں بادل یا تو امونیئم ہائیڈرو سلفائیڈ سے بنے ہیں یا پھر پانی سے۔
سطر 17:
ہیلئم سے زیادہ بھاری عناصر کی مقدار کے بارے یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
=== بادلوں کی تہیں ===
زحل کی فضاء مشتری کی طرح پٹیوں سے مل کر بنی ہے تاہم زحل کی یہ پٹیاں بہت دھندلی ہیں اور خط استوا کے نزدیک زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ گہرائی میں یہ 10 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور درجہ حرارت منفی 23 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور یہ پٹی یا تہہ پانی کی برف سے بنی ہے۔ اس تہہ کے اوپر
زحل کے بے رنگ موسم میں کبھی کبھار طویل المدتی تبدیلی آتی ہے۔ 1990 میں ہبل خلائی دور بین نے استوا کے قریب ایک بڑا سفید بادل دیکھا جو وائجر کے سفر میں دکھائی نہیں دیا تھا۔ 1994 میں ایک اور چھوٹا طوفان دکھائی دیا۔ اس طرح کے طوفان زحل پر ہر سال آتے ہیں۔ زحل کا ایک سال زمین کے 30 سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس سے قبل 1876، 1903، 1933 اور 1960 میں اس طرح کے طوفان بھی دیکھے گئے ہیں۔ 1933 کا طوفان مشہور ترین ہے۔ اگر یہ سلسہ اسی طرح جاری رہا تو
کیسینی خلائی جہاز کی بھیجی ہوئی تصاویر کے مطابق زحل کا شمالی نصف کرہ یورینس کی طرح چمکدار نیلے رنگ کا تھا تاہم اس وقت زمین سے اس کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ زحل کے دائرے راستے میں آ جاتے تھے۔
سطر 29:
زحل کو اس کے حلقوں کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے جو اسے ہمارے نظام شمسی کا منفرد ترین سیارہ بناتے ہیں۔ یہ حلقے زحل کے خطِ استوا سے 6٫630 سے لے کر 1٫20٫700 کلومیٹر اوپر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی اوسط موٹائی 20 میٹر ہے اور 93 فیصد پانی کی برف اور 7 فیصد کاربن پر مشتمل ہیں۔ ان ذروں کا حجم دھول کے ذرے سے لے کر چھوٹی کار تک ہو سکتا ہے۔ ان حلقوں کے بارے دو آراء ہیں۔ پہلی رائے میں یہ حلقے کسی سابقہ چاند کی باقیات ہیں جبکہ دوسری رائے میں یہ حلقے اسی مادے کا بقیہ حصہ ہیں جس سے زحل بنا تھا۔ چند مرکزی حلقوں میں موجود برف زحل کے ایک چاند کے برفانی آتش فشانوں سے آئی ہے۔
== قدرتی چاند ==
زحل کے کم از کم 62 چاند ہیں۔ ٹائیٹن سب سے بڑا اور زحل کے گرد موجود تمام مادے کے 90 فیصد کے برابر ہے۔
== مہم کی ابتداء ==
زحل کی چھان بین تین ادوار میں منقسم ہے۔ پہلے یعنی قدیم دور میں جب تمام تر مشاہدات انسانی آنکھ سے بغیر کسی آلے کی مدد کے کیے جاتے تھے جب دوربین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ 17ویں صدی سے بتدریج دوربینوں میں جدت پیدا ہونے لگی اور زمین سے دوربین کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔ اس کے بعد خلائی جہاز جیسا کہ خلائی جہازوں کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔
سطر 42:
1899 میں ولیم ہنری پکرنگ نے فوب کو دریافت کیا جو بے قاعدہ چاند ہے۔ دیگر چاندوں کے برعکس اس کی مدار میں حرکت الٹ سمت میں ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل سے ہونے والی تحقیق سے 1944 میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی کہ زحل کے چاند ٹائیٹن پر باقاعدہ فضاء موجود ہے جو ہمارے نظام شمسی کے چاندوں کے لئے اچھنبے کی بات ہے۔
=== ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے خلائی جہاز ===
==== پائینئر 11 کا
زحل کے نزدیک سے پہلی بار پائینئر 11 نامی خلائی جہاز 1979 میں گزرا تھا۔ یہ خلائی جہاز زحل کے بادلوں کی اوپری سطح سے 20٫000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے سے گذرا تھا۔ ہلکے معیار کی تصاویر سے زحل اور اس کے کچھ چاندوں کے بارے کچھ معلومات ملی تھیں۔ اس خلائی جہاز نے زحل کے حلقوں کا بھی مشاہدہ کیا اور پتہ چلا کہ "خالی" حلقوں کو جب سورج کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ خالی نہیں دکھائی دیتے۔ اس خلائی جہاز نے ٹائیٹن کے درجہ حرارت کی پیمائش بھی کی۔ تصاویر کے دھندلے ہونے کی وجہ زحل پر سورج کی کم روشنی پہنچنا اور اس دور کے کیمروں کا پرانا ہونا بھی اہم وجوہات تھیں۔
==== وائجر کا
نومبر 1980 میں وائجر اول نامی خلائی جہاز زحل سے گذرا۔ اس جہاز سے ہمیں زحل اور اس کے نظام کے بارے پہلی بار صاف اور واضح تصاویر ملیں۔ پہلی بار زحل کے چاندوں کی سطح کی تصاویر بھی واضح دکھائی دیں۔ وائجر اس سفر میں ٹائیٹن کے قریب سے بھی گذرا جس سے ہمیں اس چاند کی فضاء کے بارے اہم معلومات جاننے کو ملیں۔ ٹائیٹن کے پاس سے گذرنے کی وجہ سے وائجر کا رخ ہمارے نظام شمسی سے باہر کی جانب ہو گیا۔
تقریباً ایک سال بعد اگست 1981 میں وائجر
ان خلائی جہازوں نے پہلے سے موجود چاندوں کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ نئے چاند اور حلقوں کو بھی دریافت کیا۔
|