"حنفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:حنفی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
(ٹیگ: القاب)
سطر 7:
 
== فقہ کیا ہے؟ ==
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیرپزیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں:
 
· قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟
سطر 17:
· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟
· اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیرپزیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔
 
== اصول فقہ کا موضوع ==
سطر 33:
== فقہ کی ضرورت ==
 
دین میں کچھ باتیں تو بہت آسان هوتی هیں جن کے جاننے میں سب خاص وعام برابر هیں ، جیسے وه تمام چیزیں جن پرایمان لانا ضروری هےہے یا مثلا وه احکام جن کی فرضیت کو سب جانتے هیں ، چنانچہ هر ایک کو معلوم هےہے کہ نماز ، روزه ، حج ، زکوه ، ارکان اسلام میں داخل هیں ، لیکن بہت سارے مسائل ایسے هیں جن کا حل قرآن و سنت میں بالکل واضح موجود نہیں ہوتا، ان کو غیر منصوص مسائل کہتے ہیں، غیر منصوص مساءل کا حکم معلوم کرنے کیلیےکے لیے مجتہدین کے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد مجتہدین امت نے جن میں صحابہ؛ تابعین؛ تبع تابعین اور بعد کے مجتہدین شامل ہیں؛ اس سلسلے میں اجتہاد کر کے امت کی رہنماءی کی۔ مجتہدین قرآن وحدیث میں خوب غور وخوض کے بعد سمجھتے هیں ان مجتہدین کے لیئے لیے بھی یہ مسائل سمجھنے کے لیئے لیے شرعی طور پر ایک خاص علمی استعداد کی ضرورت هےہے ، جس کا بیان اصول فقہ کی کتابوں میں بالتفصیل مذکور هےہے ، بغیر اس خاص علمی استعداد کے کسی عالم کو بھی یہ حق نہیں هےہے کہ کسی مشکل آیت کی تفسیر کرے ، یاکوئ مسئلہ قرآن وحدیث سے نکالے ، اور جس عالم میں یہ استعداد هوتی هےہے اس کو اصطلاح شرع میں " مجتهد " کہا جاتا هےہے ، اور اجتهاد کے لیئے لیے بہت سارے سخت ترین شرائط هیں ، ایسا نہیں هےہے کہ هر کس وناکس کو اجتهاد کا تاج پہنایا هوا هے۔ہے۔ عام علماء بھی مجتہدین کی تحقیق و دلیل پر فتوی دیتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اجتہاد وفتوی کا یہ سلسلہ عهد نبوی سے شروع هوا ، صحابہ میں بہت سے لوگ دینی سمجھ بوجھ میں دوسروں سے بڑھ کر تھے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی اجازت سے فتوی دیا کرتے اور سب لوگ ان کے فتوی کے مطابق عمل کرتے ، صحابہ وتابعین کے دور میں یہ سلسلہ قائم رهارہا ، هر شہر کا مجتهد ومفتی مسائل بیان کرتے اور اس شہر کے لوگ انهیانہی کے فتوی کے مطابق دین پر عمل کرتے، پھر تبع تابعین کے دور میں ائمہ مجتهدین نے کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے فتاوی کو سامنے رکھ کر زندگی کے هر شعبہ میں تفصیلی احکام ومسائل مرتب ومدون کیئے ، ان ائمہ میں اولیت کا شرف امام اعظم ابوحنیفہ کوحاصل هےہے اور ان کے بعد دیگر ائمہ هیں ۔
چونکہ ائمہ اربعہ نے زندگی میں پیش آنے والے اکثر وبیشتر مسائل کو جمع کردیا ، اور ساتھ هیہی وه اصول وقواعد بھی بیان کردیے جن کی روشنی میں یہ احکام مرتب کیئے گئے هیں ، اسی لیئے لیے پورے عالم اسلام میں تمام قاضی ومفتیان انہی مسائل کے مطابق فتوی وفیصلہ کرتے رهےرہے اور یہ سلسلہ دوسری صدی سے لے کر آج تک قائم ودائم هےہے ۔
 
== فقہ کی حیثیت ==
 
جس طرح فہم قرآن کے لیئے لیے حدیث ضروری هےہے ، فہم حدیث کے لیئے لیے" فقه " کی ضرورت هےہے ، اگرقرآن سمجھنے کے لیئے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم کی ضرورت هےہے ، تو آپ کی حدیث سمجھنے کے لیئے لیے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم کی ضرورت هےہے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر هےہے تو " فقه " حدیث کی شرح هےہے ، اور فقہاء کرام نے دین میں کوئی تغیر تبدل نہیں کیا بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے همارے سامنے رکھ دیئے ، جو کام همیں خود کرنا تھا اور هم اس کے لائق و اهل نہ تھے وه انهوں نے هماری طرف سے همارے لیئے لیے کردیا " فجزاهم الله عنا خیرالجزاء "
 
== فقہ کے فن کا تاریخی ارتقاء ==
سطر 61:
تابعین کا دور کم و بیش 150 ہجری (تقریباًً 780ء) کے آس پاس ختم ہوا۔ اپنے دور میں تابعین کے اہل علم اگلی نسل میں کثیر تعداد میں عالم تیار کر چکے تھے۔ یہ حضرات تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ ان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ اس وقت تک اصول فقہ کے قواعد اور قوانین پر اگرچہ مملکت اسلامیہ کے مختلف شہروں میں عمل کیا جا رہا تھا لیکن انہیں باضابطہ طور پر تحریر نہیں کیا گیا تھا۔یہ دور فقہ کے مشہور ائمہ کا دور تھا۔
 
کوفہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات 150ھ) فقہیہ تھے ۔ انہوں نے کوفہ میں قیام پذیرپزیر ہو جانے والے فقہاء صحابہ سیدنا عبداللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما اور فقہا تابعین جیسے قاضی شریح (وفات 77ھ)، شعبی (وفات 104ھ)، ابراہیم نخعی (وفات 96ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل جاری رکھا۔
 
اہل مدینہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (وفات 179ھ) کا مکتب فکر وجود پذیرپزیر ہوا۔ انہوں نے مدینہ کے فقہاء صحابہ سیدنا عمر، ابن عمر، عائشہ، عبداللہ بن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور فقہا تابعین و تبع تابعین سعید بن مسیب (وفات 93ھ)، [[عروہ بن زبیر]] (وفات 94ھ)، سالم (وفات 106ھ)، عطاء بن یسار (وفات 103ھ)، قاسم بن محمد بن ابوبکر (وفات 103ھ)، عبیداللہ بن عبداللہ (وفات 99ھ)، ابن شہاب زہری (وفات 124ھ)، یحیی بن سعد (وفات 143ھ)، زید بن اسلم (وفات 136ھ)، ربیعۃ الرائے (وفات 136ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا۔
 
امام ابوحنیفہ ، جو کہ ابراہیم نخعی کے شاگرد حماد (وفات 120ھ) اور امام جعفر صادق (وفات 148ھ) رحمہم اللہ کے شاگرد تھے، کی تقریباًً چالیس افراد پر مشتمل ایک ٹیم تھی جو قرآن و سنت کی بنیادوں پر قانون سازی کا کام کر رہی تھی۔ اس ٹیم میں ہر شعبے کے ماہرین شامل تھے جن میں زبان، شعر و ادب، لغت، گرامر، حدیث، تجارت ، سیاست ، فلسفے ہر علم کے ماہرین نمایاں تھے۔ ہر سوال پر تفصیلی بحث ہوتی اور پھر نتائج کو مرتب کر لیا جاتا۔ امام صاحب نے خود تو فقہ اور اصول فقہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے فیصلوں کو ان کے شاگردوں بالخصوص امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی علیہما الرحمۃ نے مدون کیا۔ امام ابوحنیفہ اور مالک کے علاوہ دیگر اہل علم جیسے سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد علیہم الرحمۃ یہی کام کر رہے تھے لیکن ان کے فقہ کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جو حنفی اور مالکی فقہ کو ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہارون رشید کے دور میں حنفی فقہ کو مملکت اسلامی کا قانون بنا دیا گیا اور مالکی فقہ کو سپین کی مسلم حکومت نے اپنا قانون بنا دیا۔
 
== آئمہ و فقہاء ==
سطر 86:
 
'''إني آخذ بكتاب الله إذا وجدته، فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم والآثار الصحاح عنه التي فشت في أيدي الثقات، فإذا لم أجد في كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت، ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم. فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي وابن المسيب (وعدّد رجالاً)، فلي أن أجتهد كما اجتهدوا''' .
سبحان الله الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمہ الله کے مذهب کے اس عظیم اصول کوپڑهیں ، فرمایا میں سب سے پہلے کتاب الله سے( مسئلہ وحکم ) لیتا هوںہوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پھر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرتا هوںہوں ، اور اگر كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا هوںہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باهر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پھر میں بھی اجتهاد کرتا هوںہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔
یہ هےہے وه عظیم الشان اصول وبنیاد جس کے اوپر فقہ حنفی قائم هےہے ، امام اعظم کے نزدیک قرآن مجید فقہی مسائل کا پہلا مصدر هے،پھردوسراہے،پھردوسرا مصدر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ هیں حتی کہ امام اعظم دیگرائمہ میں واحد امام هیں جو ضعیف حدیث کو بھی قیاس شرعی پرمقدم کرتے هیں جب کہ دیگرائمہ کا یہ اصول نہیں هےہے ، پھر تیسرا مصدرامام اعظم کے نزدیک صحابہ کرام اقوال وفتاوی هیں ،اس کے بعد جب تابعین تک معاملہ پہنچتا هےہے تو امام اعظم اجتهاد کرتے هیں ،کیونکہ امام اعظم خود بھی تابعی هیں ،
 
== فقہ حنفی کی تدوین و ترویج ==