"زلزلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Reverted to revision 1757033 by 1.186.77.26 on 2015-12-10T07:59:25Z
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 8:
دنيا کی تاريخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔ ان ميں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصّے کو ديکھتے ہی ديکھتے صفحۂٔ ہستی سے مٹاکر رکھ ديا۔ يہ حقيقت ہے کہ حادثات اور قدرتی آفات ميں زلزلے سے بڑھ کر کوئی دہشت ناک نہيں، اس لئے کہ يہ کسی پيشگی اطلاع کے بغير ايک دم نازل ہوتا ہے، يوں ذہنی طور پر اس کا سامنا کرنے کی تياری کا کسی کو بھی وقت نہيں ملتا۔
يوں بھی انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات ديگر قدرتی آفات مثلاً سيلاب، طوفان، وبائی بيماريوں اور جنگوں وغيرہ کے مقابلے ميں کہيں زيادہ گہرے اور ديرپا ہوتے ہيں، زلزلوں کی ہلاکت خيزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہيں زيادہ ہے۔ نفسياتی ماہرين کا تجزيہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شديد حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہيں۔
معلوم تاريخ کے مطالعے کے بعد ايک اندازہاندازا لگايا گيا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہيں۔ مالی نقصانات کا تو شايد کوئی حساب ہی نہيں کيا جاسکتا۔
آٹھ اکتوبر کی صبح 8 بج کر 50 منٹ پر جو قيامت خيز زلزلہ آيا، اس نے جہاں آزاد کشمير اور صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈويژن ميں تباہی پھيلائی وہيں پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی اس ہلاکت آفريں زلزلے کی زد ميں آگيا۔ زلزلے کے ابتدائی جھٹکے اس قدر شديد اور خوفناک تھے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام لوگ گھروں، دفترو ں اور کاروباری مراکز سے خوفزدہ ہوکر سڑکوں پر آگئے اور پھر کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر ہی رہے۔
زلزلے کيوں آتے ہيں؟ آتش فشاں پہاڑ کيوں پھٹتے ہيں؟ اور دنيا کے کچھ حصّوں ميں اس قسم کے واقعات زيادہ کيوں رونما ہوتے ہيں؟ ان جيسے بہت سے سوالات 8 اکتوبر کے بعد اکثر لوگوں کے ذہنوں ميں شدوّمد سے گردش کر رہے ہيں!۔۔۔۔
سطر 23:
[[Image:Tsu03.jpg|thumb|پلیٹوں کی حرکات]]
زلزلے دو قسم کے ہوتے ہيں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹيکٹونک Tectonic زلزلے کہا جاتا ہے جبکہ انسانی سرگرميوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹيکٹونک Non Tectonic کہلاتے ہيں۔ ٹيکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہوسکتے ہيں۔ جبکہ نان ٹيکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہيں۔ ايک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہوسکتا ہے چنانچہ کسی خطے ميں تو بہت زيادہ تباہی ہوجاتی ہے ليکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہيں۔
زلزلے کی لہريں 25 ہزار کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھيلتی ہيں۔ نرم مٹی اور ريت کے علاقے ميں يہ نہايت تباہ کن ثابت ہوتی ہيں۔ ان کی شدّت کا اندازہاندازا ريکٹر اسکيل پر زلزلہ پيما کے ريکارڈ سے لگايا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدّت مرکلی اسکيل Mercally Intensity Scale سے ناپی جاتی ہے۔
زلزلے سمندر کی تہہ ميں موجود زمينی سطح پر بھی پيدا ہوتے ہيں اور حقيقت يہ ہے کہ زيادہ تر زلزلے سمندر کی تہہ ميں ہی پيد اہوتے ہيں۔ بحری زلزلوں يعنی سونامی سے سمندر ميں وسيع لہريں پيدا ہوجاتی ہيں۔
انميں سے بعض تو ايک سو ميل سے لے کر 200 ميل تک کی لمبائی تک پھيل جاتی ہيں، جبکہ ان کی اونچائی 40 فٹ تک ہوتی ہے۔ يہ لہريں ساحل پر پہنچتی ہيں تو ساحل سے گزر کر خشکی کی جانب سيلاب کی طرح داخل ہوجاتی ہيں اور بے پناہ تباہی و بربادی پھيلاديتی ہيں۔
 
دنيا کے وہ خطے جہاں زلزلے زيادہ پيدا ہوتے ہيں، بنيادی طور پر 3 پٹيوں Belts ميں واقع ہيں۔ پہلی پٹی جو کہ مشرق کی جانب ہماليہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے، انڈيا اور پاکستان کے شمالی علاقوں ميں ہماليہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ايران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم يورپ اور يوگوسلاويہ سے فرانس تک يعنی کوہ ايلپس تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری پٹی براعظم شمالی امريکا کے مغربی کنارے پر واقع الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف Rocky mountains کو شامل کرتے ہوئے ميکسيکو سے گزر کربراعظم جنوبی امريکہ کے مغربی حصّے ميں واقع ممالک کولمبيا، ايکواڈور اور پيرو سے ہوتی ہوئی چلّی تک پہنچ جاتی ہے۔
جبکہ تيسری پٹی براعظم ايشيا کے مشرق پر موجود جاپان سے شروع ہوکر تائيوان سے گزرتی ہوئی جنوب ميں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشياءاور انڈونيشيا تک پہنچ جاتی ہے۔
دنيا ميں 50 فيصد زلزلے کوہِ ہماليہ، روکيز ماؤنٹين اور کوہِ اينڈيز ميں پيدا ہوتے ہيں اور يہ تينوں پہاڑی سلسلے اوپر بيان کردہ پٹيوں ہی ميں واقع ہيں۔ تقريباً 40 فيصد زلزلے، براعظموں کے ساحلی علاقوں اور ان کے قرُب و جوار ميں پيدا ہوتے ہيں جبکہ بقيہ 10 فيصد زلزلے دنيا کے ايسے علاقوں ميں جو کہ نہ تو پہاڑی ہيں اور نہ ساحلی ہيں، رونما ہوتے ہيں۔
 
جب زمين کی پليٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضياتی دباؤ کا شکار ہوکر ٹوٹتی يا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمين پر زلزلے کی لہريں پيدا ہوتی ہيں۔ يہ لہريں دائروں کی صورت ميں ہر سمت پھيل جاتی ہيں۔ جہاں پليٹ ميں حرکت کا مرکز واقع ہوتا ہے وہ Hypo Centre کہلاتا ہے۔ اس کے عين اوپر سطحِ زمين پر زلزلے کا مرکز Epicentre کہلاتا ہے۔ يہ لہريں نظر تو نہيں آتيں ليکن ان کی وجہ سے سطح زمين پر موجود ہر شے ڈولنے لگتی ہے۔<ref>{{حوالہ خبر | عنوان =زلزلے کیوں آتے ہیں | اخبار =ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی | تاریخ = نومبر 2005ء }}</ref>