"زلزلہ پیما" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Reverted to revision 1810759 by محمد شعیب on 2015-12-29T23:34:24Z
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 4:
==تاریخ==
[[Image:EastHanSeismograph.JPG|thumb|left|ماہرِ ارضیات [[چنگ ہینگ]] کے بنائے ہوئے زلزلہ پیما کی ایک نقل]]
ابتداء میں ماہرینِ ارضیات نے زلزلے کی پیمائش کے لئے کئی طریقے وضع کررکھے تھے، جس میں زلزلے کی شدت کا اندازہاندازا سطح زمین پر ہونے والے اثرات و نقصانات سے اور اس کی پیمائش کا تناسب انسانی اموات اور معاشی نقصانات سے لگایا جاتا تھا۔ اس طرح زلزلے کا پھیلاؤ تو معلوم کیا جاسکتا ہے کہ زمین پر کہاں کہاں تک یہ زلزلہ پہنچا مگر زلزلہ کی طاقت اور قوت اس طریقے میں نظر انداز ہوجاتی تھی۔ مثلاً زمین میں کتنا ارتعاش ہوا؟۔۔۔۔۔ اور زلزلے کی لہر Wave کی شدت کیا تھی؟۔۔۔۔۔
یوں زلزلے کی اصل کیفیت کا اندازہاندازا لگانا مشکل ہوتا تھا کیونکہ زمینی بناوٹ کی بنا پر زلزلہ کم یا زیادہ محسوس ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ریگستانوں سے زیادہ پہاڑی علاقوں کو زلزلہ متاثر کرتا ہے، اگرچہ زلزلے کی قوت یکساں ہوں تب بھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس مرکز سے زلزلے کی ابتداء ہو وہاں تو اتنا نقصان نہ ہو لیکن دُور دراز کے علاقے اس زلزلے سے برباد ہوجائیں اور اس کی وجہ ان کی زمینی بناوٹ اور چٹانوں میں فرق ہو۔ زلزلے کی شدّت معلوم کرنے کے لئے ماہرینِ ارضیات نے جو دوسرا طریقہ استعمال کیا وہ سیسموگراف Seismograph تھا۔ اس کی ابتداء دو ہزار برس قبل چین میں ہوئی۔
 
132 عیسوی میں چین کے ماہرِ ارضیات چنگ ہینگ نے ایک انسٹرومنٹ ایجاد کیا تھا جسے آج Earthquake Weather Cock کہتے ہیں۔ یہ کانسی سے بنا ہوا ایک پیالہ نما انسٹرومنٹ تھا، جس کے اطراف اژدہے منہ کھولے بنے ہوئے تھے اور ان کے منہ میں گیندیں پھنسی ہوئی تھیں۔ اس انسٹرومنٹ کے اندر ایک پینڈولم نصب تھا جسے اژدہے کے جبڑوں سے تاروں کے ذریعے باندھ دیا گیا تھا۔ جب بھی زلزلہ آتا تو پنڈولم حرکت میں آجاتا اور کسی ایک اژدہے کے جبڑے میں پھنسی گیند گرجاتی یوں ناصرف زلزلے کی آمد کا بھی پتہ چل جاتا بلکہ سمت کا بھی اندازہاندازا کیا جاسکتا تھا۔ <ref name="ReferenceA">{{حوالہ خبر | عنوان =زلزلوں کی پیمائش | اخبار =ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی | تاریخ = نومبر 2005ء }}</ref>
 
==سیسموگراف==