"وحی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 6:
| 112
}}
اور اسی طرح ہم نے ہر [[پیغمبر|نبی]] کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہدھوکا دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا ربّ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)o ترجمہ از [[عرفان القرآن]] <br />
[[ابو اسحق]] نے کہا ہے کہ وحی کا [[لغت]] میں معنی ہے خفیہ طریقے سے خبر دینا، اسی وجہ سے [[الہام]] کو وحی کہتے ہیں، [[ازہری]] نے کہا ہے اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہتے ہیں۔ اشارہ کے متعلق یہ آیت ہے:
{{اقتباس قرآن
سطر 31:
چنانچہ اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مذکورہ بالا باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعے اور جوباتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اور جہاں تک حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے یہ بھی ایک حد تک جاکر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے ہوسکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالٰی راضی ہوتے ہیں اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوتے ہیں، اس علم کا جو ذریعہ اللہ تعالٰی نے مقرر فرمایا ہے وہ "وحی" ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اسے پیغمبر قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اسی کلام کو وحی کہا جاتا ہے ۔
صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہی ہو جائے بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے نری عقل پر بھروسہبھروسا کرنا درست نہیں؛ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقائدہ نظام ضرور بنایا ہے بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی اور رسالت ہے، اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ کا انکار ہے، یہ وحی اللہ تعالٰی نے ان ہزاروں پیغمبروں پر نازل فرمائی جنھوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا؛ یہاں تک کہ حضور اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی۔.
 
==وحی کی اقسام: متلو اور غیر متلو==
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/وحی»