"پریم چند کی افسانہ نگاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← using AWB
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 16:
== داستانوی رنگ اور ہندو تاریخ:۔ ==
 
پہلے دور کے ابتدائی سالوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر پریم چند اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”سوز وطن“ کے نام سے 1909ءمیں زمانہ پریس کانپور سے چھپواتے ہیں جو انگریز سرکا کو ”خطرہ کی گھنٹی “ محسوس ہوتا ہے اور اس کی تمام کاپیاں ضبط کر لی جاتی ہیں۔اس کے بعد وہ تاریخ اور اصلاح معاشرہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ اس وقت تک وہ افسانوی تکنیک سے ناواقف تھے اور طلسم ہو شربا کے اسیر تھے۔ 1909ءسے 1920 ءتک پریم چند ”ہوبا“ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈراتکھنڈر انہیں ہندوؤں کی عظمت ِ گذشتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ حالی کی طرح انہیں بھی اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوقوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگرکرنا چاہیے ۔ چنانچہ ٠١٩١ءمیں ”رانی سارندھا“ 1911ءمیں ”راجہ ہردول“ اور 1912ءمیں ”آلھا“ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔<br />
پریم چند کے دل میں ہندو راجوں اور رانیوںکی حوصلہ مندی اور خاندانی روایات کی پاسداری کا بڑا احترام تھا ۔ ”رانی سارندھا“میں انہوں نے ہندو قوم کے ماضی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ان سب افسانوں میں کسی نہ کسی تاریخی واقعہ کو دہرا کر ہندو قوم کو اسلاف کے کارنامے یاد دلانا مقصود ہے۔