"امراؤ جان ادا" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
||
سطر 22:
| followed_by =
}}
'''امراؤ جان ادا''' [[مرزا محمد ہادی رسوا]] لکھنوی کا معرکہ آرا [[معاشریات|معاشرتی]] ناول ہے۔ جس میں انیسویں صدی کے
== فنی جائزہ ==
سطر 47:
=== خورشید جان ===
جہاں تک خورشید جان کا تعلق ہے۔ امراؤ جان ادا کی طرح یہ بھی ایک شریف گھرانے کی بیٹی ہے کسی زمیندار کی لڑکی ہے اغوا کرکے
=== گوہر مرزا ===
سطر 72:
==فکری جائزہ==
{{وکی اقتباسات|امراؤ جان ادا}}
فکری طورپر دیکھا جائے تو امراؤ جان ادا بیک وقت سماجی ، معاشرتی ، نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں انتہائی فکر انگیز حالات و واقعات پیش کئے ہیں ۔ یہ ایسے حالات ہیں جن کے اندر ہمیں سماجی و معاشرتی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرے و سماج میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور جذبات بھی نظرآرہے ہیں۔ اس ناول میں جہاں بہت سے ناگفتہ بہ حالات و واقعات پیش کئے گئے ہیں ۔ وہیں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو درپیش آئے ان کے دھڑکتے دل ، سوچیں ، آتی جاتی اور ٹوٹتی سانسیں ، خدشات ، تجربات اپنے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک سچا اور حقیقی ناول ہے جو اپنے وقت کے معاشرے کی ایک مکمل تصویر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے کہانی کے انداز میں معاشرے اور سماج کی عکاسی کرتے ہوئے طوائفوں کے کوٹھے کو مرکز بنا کر پڑھنے والوں کو بھی وہیں بٹھا کر پورے
سب سے پہلے یہی کہ بہت سے شریف گھرانوں کی امراؤ جان جیسی بچیاں اغوا کرکے اپنے دام کھرنے کرنے کی غرض سے گناہ کے دلدل میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ جہاں وہ تمام عمر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتیں ۔ امرا ءجا ن اد کے علاوہ رام دئی آبادی جان اور خورشید جان درحقیقت ایسی بے شمار لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جنہیں اغوا کرکے اونے پونے داموں طوائفوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ اس سے ہم بخوبی انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت بردہ فروشی کا ایک باقاعدہ نظام تھا۔ معاشرتی و سماجی حقیقت نگاری کا قرض ادا کرتے ہوئے ناول نگار نے یہ حقیقت ثابت کر دکھائی ہے کہ ا س وقت کی لکھنوی معاشرت میں طوائف کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ طوائف مالدار لوگوں کی ایک لازمی ضرورت تھی۔اسے سوسائٹی کا اٹوٹ انگ سمجھا جاتا تھا۔ طوائف کے ہاں آنا جانا اور اسے اپنی داشتہ بنا کر رکھنا فخر اور نمود نمائش کا درجہ رکھتا تھا۔ اس زمانے کے
ناول نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے طوائف کا بالا خانہ بنا ہوا ہے۔ طوائفوں نے مختلف لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایک مخصوص منشور بنا رکھا ہے۔ وہ منشور”مسی “ کی رسم سے شروع ہوتا ہے۔ جو صرف اور صرف کوئی نواب ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ اور جس کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اور اس طرح معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کی قیمت خانم جیسی گھاک طوائف کے صندوق میں پہنچ جاتی ہے۔
ناول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا
جب کوئی دیکھوں اداکارہ یقیں ہوتا ہے<br>
حسن سو بارلٹے پھر بھی حسیں ہو تا ہے
جس طرح
بک گئے حیف جو سب شہر کے بازاروں میں<br>
|