"قرارداد پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
اندرونی روابط
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
[[23 مارچ]]، [[1940ء]] کو [[لاہور]] کے [[اقبال پارک|منٹو پارک]] میں [[آل انڈیا مسلم لیگ]] کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
 
[[برصغیر]] میں [[برطانوی راج]] کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936ء/1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔
[[Image:Fazlul Haq Lion of Bengal.jpg|framepx|right|thumb|[[فضل الحق|مولوی فضل الحق]]]]
[[کانگریس]] کو [[چنائے|مدراس]]، یو پی، سی پی، [[بہار]] اور [[اڑیسہ]] میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، [[خیبر پختونخوا|سرحد]] اور [[ممبئی|بمبئی]] میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور [[سندھ]] اور [[آسام]] میں بھی جہاں [[مسلمان]] حاوی تھے [[آل انڈیا کانگریس|کانگریس]] کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔
سطر 7:
پنجاب میں البتہ سر [[فضل حسین]] کی [[یونینسٹ پارٹی (پنجاب)|یونینسٹ پارٹی]] اور [[بنگال]] میں [[فضل الحق|مولوی فضل الحق]] کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔
 
غرض [[ہندوستان]] کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ[[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔
 
اس دوران [[آل انڈیا کانگریس|کانگریس]] نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً [[آل انڈیا کانگریس|کانگریس]] نے [[ہندی]] کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور [[آل انڈیا کانگریس|کانگریس]]کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دے دی۔
 
اس صورت میں [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری ک۔
 
اسی دوران [[دوسری جنگ عظیم]] کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر [[برطانوی راج]] اور [[آل انڈیا کانگریس|کانگریس]] کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور [[آل انڈیا کانگریس|کانگریس]] اقتدار سے الگ ہوگئی تو [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں [[لاہور]] میں ''[[آل انڈیا مسلم لیگ]]''' کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔
[[Image:Allama Mashriqi.jpg|framepx|left|thumb|[[علامہ مشرقی عنایت اللہ خاں|علامہ مشرقی]]]]
اجلاس سے 4 روز قبل [[لاہور]] میں [[علامہ مشرقی عنایت اللہ خاں|علامہ مشرقی]] کی [[خاکسار]] جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے [[لاہور]] میں زبردست کشیدگی تھی اور [[پنجاب]] میں [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کی اتحادی جماعت [[یونینسٹ پارٹی (پنجاب)|یونینسٹ پارٹی]] برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔
 
موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر '''قائداعظم''' [[محمد علی جناح]] نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ [[ہندوستان]] میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔
سطر 38:
[[Image:Sikander1940.jpg|frame|left|thumb|[[سر سکندر حیات خان]]]]
غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قراردادِ لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے [[پنجاب]] کے یونینسٹ وزیر اعلی [[سر سکندر حیات خان]] نے تیار کیا تھا۔
[[یونینسٹ پارٹی (پنجاب)|یونینسٹ پارٹی]] اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہو گئی تھی اور سر سکندر حیات خان [[پنجاب]] [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کے صدر تھے۔
 
سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔
سطر 47:
 
[[Image:Hussein Shaheed Sehrwarday.JPG|framepx|left|thumb|[[حسین شہید سہروردی]]]]
1946ء کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد [[حسین شہید سہروردی]] نے پیش کی اور [[یو پی]] کے مسلم لیگی رہنما [[چودھری خلیق الزماں]] نے اس کی تائید کی تھی۔ قراردادِ لاہور پیش کرنے والے [[فضل الحق|مولوی فضل الحق]] اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں 1941ء میں [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] سےخارج کردیا گیا تھا۔
 
دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما [[ابو الہاشم]] نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کے آئین کا حصہ ہے- ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں-
 
ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔