"ابو سعید مبارک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م معمولی صفائی
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 31:
| major_works =
}}
'''ابو سعید مبارک مخزومی''' یہ غوث اعظم شیخ عبد القادر کے پیر و مرشد تھے۔
'''مبارک بن علی بن حسین''': کنیت ابو سعید والد کا نام علی بن حسین مخزومی ہے۔مخزومی [[بغداد]] کے ایک محلہ کا نام ہے اسی وجہ سے آپ مخزومی مشہور ہوئے۔ اپنے زمانے کے سلطان الاولیا، برہان الاصفیا تھے۔[[ابوالحسن ہنکاری|شیخ ابوالحسن علی ہنکاری]] کے نامورخلیفہ ہیں۔ مذہبا [[حنبلی]] تھے۔غوث پاک فرماتے ہیں کہ میں گیارہ سال تک ایک برج میں عبادت الٰہی میں مصروف تھا یہاں تک کہ میں نے طے کرلیا کہ اس وقت تک کچھ نہ کھاؤں پیوں گا جب تک اللہ نہ کھلائے۔ اس طرح چالیس روز تک کچھ نہ کھایا نہ پیا۔ چالیس دن کے بعد ایک شخص آیا اور کچھ کھانا میرے سامنے رکھ کر چلا گیا۔ قریب تھا کہ میرا نفس شدت بھوک سے کھانے پر گرپڑے۔ میں نے کہا قسم ہے رب ذوالجلال کی جو عہد میں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے اس سے نہیں پھروں گا۔اس کے بعد میں نے باطن سے کسی شخص کی آواز سنی جو الجوع الجوع کہتا تھا۔ اسی دوران شیخ ابوسعید مبارک مخزومی تشریف لائے اور اس آواز کو سن کر فرمایا اے عبدالقادر یہ کیسی آواز ہے؟میں نے کہا یہ نفس کا قلق و اضطراب ہے لیکن روح برقرار ہے۔ اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ میرے مکان پر چلولیکن میں نہیں گیا اور دل ہی دل میں کہا کہ باہر نہیں جاؤں گا۔اس دوران اچانک [[خضر علیہ السلام]] تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ اٹھو اور ابوسعید مخزومی کی خدمت میں جاؤ۔ جب میں ان کے دولت کدہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ شیخ اپنے دولت کدے کے دروازے پر کھڑے میرا انتظار کررہے تھے۔شیخ ابوسعید مبارک مخزومی نے فرمایا اے عبدالقادر جو میں نے تم سے کہا تھا کیا وہ کافی نہیں تھا جو خضر علیہ السلام کو کہنا پڑا۔ اس کے بعد پھرشیخ ابوسعید مبارک مخزومی مجھے اپنے مکان کے اندر لے گئے کھانا مہیا کیا اور لقمہ میرے منہ میں رکھا یہاں تک کہ میں آسودا ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے خرقہ پہنایا اور پھر میں ان کی صحبت میں رہنے لگا۔شیخ ابوسعید مبارک مخزومی نے مدرسہ بنوایا اور اس کی عمارت اپنی زندگی ہی میں غوث پاک کے سپرد کردی۔ چنانچہ غوث پاک کا مزار اسی مدرسہ میں ہے۔
== نام و نسب ==
 
نام مبارک کنیت ابو سعید اور ابو یوسف والد کا نام علی بن حسین مخزومی ہے۔مخزومی [[بغداد]] کے ایک محلہ کا نام ہے اسی وجہ سے آپ مخزومی مشہور ہوئے۔ اپنے زمانے کے سلطان الاولیا، برہان الاصفیا تھے۔
27شعبان المعظم [[513ھ]] بروز جمعرات اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ آخری آرام گاہ انکے قائم کردہ مدرسہ میں ہے جوبغداد [[عراق]] میں واقع ہے۔<ref>خزینۃ الاصفیاء،جلد اول،صفحہ 149، مکتبہ نبویہ لاہور</ref><ref>[https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-imam-abu-saeed-makhzoomi مختصر تذکرہ]</ref>
== باطنی نسبت ==
'''مبارک بن علی بن حسین''': کنیت ابو سعید والد کا نام علی بن حسین مخزومی ہے۔مخزومی [[بغداد]] کے ایک محلہ کا نام ہے اسی وجہ سے آپ مخزومی مشہور ہوئے۔ اپنے زمانے کے سلطان الاولیا، برہان الاصفیا تھے۔[[ابوالحسن ہنکاری|شیخ ابوالحسن علی ہنکاری]] کے نامورخلیفہ ہیں۔ مذہبا [[حنبلی]] تھے۔غوث پاک فرماتے ہیں کہ میں گیارہ سال تک ایک برج میں عبادت الٰہی میں مصروف تھا یہاں تک کہ میں نے طے کرلیا کہ اس وقت تک کچھ نہ کھاؤں پیوں گا جب تک اللہ نہ کھلائے۔ اس طرح چالیس روز تک کچھ نہ کھایا نہ پیا۔ چالیس دن کے بعد ایک شخص آیا اور کچھ کھانا میرے سامنے رکھ کر چلا گیا۔ قریب تھا کہ میرا نفس شدت بھوک سے کھانے پر گرپڑے۔ میں نے کہا قسم ہے رب ذوالجلال کی جو عہد میں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے اس سے نہیں پھروں گا۔اس کے بعد میں نے باطن سے کسی شخص کی آواز سنی جو الجوع الجوع کہتا تھا۔ اسی دوران شیخ ابوسعید مبارک مخزومی تشریف لائے اور اس آواز کو سن کر فرمایا اے عبدالقادر یہ کیسی آواز ہے؟میں نے کہا یہ نفس کا قلق و اضطراب ہے لیکن روح برقرار ہے۔ اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ میرے مکان پر چلولیکن میں نہیں گیا اور دل ہی دل میں کہا کہ باہر نہیں جاؤں گا۔اس دوران اچانک [[خضر علیہ السلام]] تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ اٹھو اور ابوسعید مخزومی کی خدمت میں جاؤ۔ جب میں ان کے دولت کدہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ شیخ اپنے دولت کدے کے دروازے پر کھڑے میرا انتظار کررہے تھے۔شیخ ابوسعید مبارک مخزومی نے فرمایا اے عبدالقادر جو میں نے تم سے کہا تھا کیا وہ کافی نہیں تھا جو خضر علیہ السلام کو کہنا پڑا۔ اس کے بعد پھرشیخ ابوسعید مبارک مخزومی مجھے اپنے مکان کے اندر لے گئے کھانا مہیا کیا اور لقمہ میرے منہ میں رکھا یہاں تک کہ میں آسودا ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے خرقہ پہنایا اور پھر میں ان کی صحبت میں رہنے لگا۔شیخ ابوسعید مبارک مخزومی نے مدرسہ بنوایا اور اس کی عمارت اپنی زندگی ہی میں غوث پاک کے سپرد کردی۔ چنانچہ غوث پاک کا مزار اسی مدرسہ میں ہے۔
== وفات ==
27شعبان المعظم [[513ھ]] بروز جمعرات اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ آخری آرام گاہ انکے قائم کردہ مدرسہ باب الازج میں ہے جوبغداد [[عراق]] میں واقع ہے۔<ref>خزینۃ الاصفیاء،جلد اول،صفحہ 149، مکتبہ نبویہ لاہور</ref><ref>[https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-imam-abu-saeed-makhzoomi مختصرضیائے تذکرہطیبہ]</ref>
 
== حوالہ جات ==