"جرگہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
[[Image:Jarga.jpg|framepx|thumb|left|[[جنوبی وزیرستان]] کے شہر [[میران شاہ]] میں قبائلی عمائدین نے ایک ’گرینڈ‘ جرگہ]]بمعنی [[پنجایت]]۔ [[بلوچستان]] ،[[ سرحد]] اور قبائلی علاقوں [[فاٹا]] میں انگریزی دور سے پہلے عموما مقامی جرگوں کا رواج پہلے سے موجود تھا۔ جو [[وصیت]] ، [[طلاق]] ، منگنی ، قتل ، شید چوٹ اور فتنہ و فساد کے مقدمات کے فیصلے صدار کرتےصادر تے۔کرتےتھے۔ اس طرح ہر قبیلہ عدلی لحاظ سے آزاد تھا ۔ بلوچستان کے پہلے ایجنٹ گورنر جنرل [[سر رابرٹ سنڈیمن]] نے نہ صرف جرگے کے وسیع استعمال پر زور دیا بلکہ اضلاع ، قبائل اور صوبوں کے لیے جرگے منظم کیے۔ اضلاع میں قبائل کے باہمی جھگڑوں کے لیے [[شاہی جرگہ]] ، گرمی میں کوئٹہ اور سردی میں سبی میں منعقد ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ فورٹ منرو میں سالانہ جرگہ ہوتا تھا جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی مقدمات سنتا تھا۔اسی طرح قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں بھی حکومتی قانون کے ساتھ ساتھ جرگے کی اپنی ایک اہمیت رہی ۔ اور جرگے کے مشران مختلف مقدمات کے فیصلے کرتے رہتے تھے۔
 
بمعنی [[پنجایت]]۔ [[بلوچستان]] ،[[ سرحد]] اور قبائلی علاقوں [[فاٹا]] میں انگریزی دور سے پہلے عموما مقامی جرگوں کا رواج پہلے سے موجود تھا۔ جو [[وصیت]] ، [[طلاق]] ، منگنی ، قتل ، شید چوٹ اور فتنہ و فساد کے مقدمات کے فیصلے صدار کرتے تے۔ اس طرح ہر قبیلہ عدلی لحاظ سے آزاد تھا ۔ بلوچستان کے پہلے ایجنٹ گورنر جنرل [[سر رابرٹ سنڈیمن]] نے نہ صرف جرگے کے وسیع استعمال پر زور دیا بلکہ اضلاع ، قبائل اور صوبوں کے لیے جرگے منظم کیے۔ اضلاع میں قبائل کے باہمی جھگڑوں کے لیے [[شاہی جرگہ]] ، گرمی میں کوئٹہ اور سردی میں سبی میں منعقد ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ فورٹ منرو میں سالانہ جرگہ ہوتا تھا جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی مقدمات سنتا تھا۔اسی طرح قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں بھی حکومتی قانون کے ساتھ ساتھ جرگے کی اپنی ایک اہمیت رہی ۔ اور جرگے کے مشران مختلف مقدمات کے فیصلے کرتے رہتے تھے۔
 
جرگے کا کوئی تحریری دستور یا قانون نہ تھا۔ بلکہ عموماً ہر قسم کے تنازعے کے لیے روایتی سزائیں مقرر تھیں۔ جو اہل جرگہ حالات کے مطابق دیتے تھے۔ مثلا مکران میں معتبر بلوچ کا خون بہا تین ہزار روپیہ تھا ، ایک عام بلوچ کا دور ہزار روپیہ ، میر یعنی ملاح کا پانچ سو روپی اور غلام کا دو سو روپیہ ۔ اس میں سے ایک تہائی نقد۔ ایک تہائی آلات اور ایک تہائی جائیداد کی صورت میں ادا کرنا پڑتا تھا۔ اکثر امور شرعی قانون کےمطابق حل ہوتے تھے۔ لیکن بعض امور میں مقامی رسم کو ترجیح دی جاتی تھی۔ جرگے کے ارکان نامزد ہوت تھے اور صدر کوئی اعلیٰ سرکاری افسر جس کا تعلق قانون اور امن سے ہو ، جیسے مجسٹریٹ یا پولیٹکل ایجنٹ وغیرہ ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ نظام عدل قائم رہا۔ 1970ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر [[جنرل یحیی خان]] نے اسے منسوخ کر دیا۔ لیکن منسوخی کے بعد بھی صوبہ سرحد اور بلوچستان اور قبائل میں تقریباً نوے فیصد فیصلے اسی جرگہ سسٹم یا مشران کے تحت ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فوری فیصلہ اور مقامی قانون ہے۔ عدالتوں میں ایک فیصلہ کرنےمیں لوگوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں اور جرگہ سسٹم میں وہی فیصلہ چند دنوں میں ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں زیادہ تر لوگ جرگہ سسٹم پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہماری حکومتی عدالتیں بغلیں بجاتی ہیں اور انصاف کو مزید سستا کرنے کے لیے فیصلوں میں تاخیر کے عمل کو آگے بڑھاتی ہیں۔