"وحدت الوجود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
(ٹیگ: القاب)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 36:
امام کے ہاں پہلی صورت محمود ہے اور باقی دونوں مذموم ۔ کیونکہ ان کی تائید نہ تو حضور [[محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم]] کے کسی قول سے ہوتی ہے اور نہ فعل سے۔
 
=== بریلوی نقطۂ نگاہ ===
مولوی محمد یار دربار محمدیہ گڑھی شریف محمد {{درود}} کو خدا قرار دیتے ہوے لکھتے ہیں:-
<div style='text-align: center;'>
سطر 44:
بریلوی علامہ سید احمد سعید کاظمی اس شعر کی تشریح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ ((قبلہ حضرت یار صاحب کا یہ شعر اور اس جیسی دوسری عبارات (جو مسلم بین الفریقین علماء کی کتب میں بکثرت پائی جاتی ہیں) مسئلہ وحدت الوجود پر مبنی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعینات سے قطع نظر کرکے موجود حقیقی یعنی مابہ الموجودیت حق سبحانہ وتعالی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔ مولانا یار صاحب کے شعر کا مضمون شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے کلام میں ہے۔: تم محمد عظیم الشان {{درود}} کو محمد گمان کرتے ہو جیسے تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو، وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقت{{دوزبر}}ا آب نہیں ہے، بلکہ سراب ہے، جب تم محمد {{درود}} کے قریب آؤگے تو تم محمد {{درود}} کو نہ پاؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالٰی کو پاؤ گے، اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالٰی کو دیکھو گے۔<ref>فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:127</ref>{{اطلاع}}حوالہ مکمل دیں
 
=== دیوبندی نقطۂ نگاہ ===
دیوبندی علامہ انور شاہ کاشمیری{{رح}} اپنی کتاب فیض الباری میں لکھتے ہیں :- (کنت سمعہ الذی) کے یہ معنی بیان کرنا کہ بندہ کہ کان، آنکھ وغیرہ اعضاء حکم الہی کی نافرمانی نہیں کرتے حق الفاظ سے عدول کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالٰی کے قول( کنت سمعہ الذی) میں کنت صیغۂ متکلم اس بات پر دلالت کرتاہے کہ متقرب بالنوافل یعنی بندہ میں سوائے جسد وصورت کے کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی، اور اس میں صرف اللہ تعالٰی ہی متصرف ہے
اور یہی وہ معنی ہیں جن کو صوفیائے کرام فنا فی اللہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ <br />